02-میمونہ اور ثنا کی چدائی

صبح مجھے شمائلہ نے جگایا تو ا کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور دونوں بچیاں میرے دائیں اور بائیں لیٹی سو رہی تھیں میں آہستہ سے اٹھا اور ننگا ہی اپنے کمرے میں آ گیا جہاں شمائلہ نے ایک بار پھر مجھے پکڑ لیا میں نے وقت دیکھا تو صبح کے سات بجے تھے۔ میں نے پوچھا کہ فریحہ کے ابو کہاں ہیںَ؟ تو شمائلہ نے مجھے بتایا کہ وہ تو کب کے یونی کے لیے نکل چکے ہیں۔ میں نے کہا کہ پیاری بہنا تم لوگ تو بڑی عیش کر رہے ہو۔۔۔تو شمائلہ کہنے لگی کہ میں ایسی نہیں تھی لیکن جب میں دیکھا کہ شمائلہ کے ابو اپنی سٹوڈنٹس اور اپنے کولیگ کی بیویوں اور بیٹیوں کو چودتے ہیں تو میں نے بھی اس ٹیم میں شامل ہونا مناسب سمجھا اور اب ان کے کئی سٹوڈنٹ بھی مجھے چودتے ہیں اور سب کولیگ مل کر یہ کھیل کھیل رہے ہیں۔۔۔ ہم سب کو مزہ آتا ہے ۔۔۔ اس لیے تم مجھے اور میری دونوں بیٹیوں کو ایک ہی رات میں چود چکے ہو۔۔ مجھے تمہارا لوڑا بہت پسند آیا ہے اور میری بیٹیوں کو بھی اس لیے اب وہ اپنے ابو کو بتائیں کی “انکل بہت اچھے ہیں” تو فریحہ کے ابو سمجھ جائیں گے کہ تم میرے ساتھ ساتھ ان دونوں کی گانڈ بھی مار چکے ہو تو اگلی بار وہ ایک پارٹی رکھیں گے جس میں تمہیں بھی بلایا جائے گا اور ان کے سب دوست اور ن کی فیمیلیز بھی شامل ہوں گی جہاں چدائی کا بازار گرم ہو گا اور تم اس کے چیف گیسٹ ہو گے کیونکہ تم جلدی ڈسچارج نہیں ہوتے ا س لیے اس دن تمہیں کم از کم 14 چوتیں اور گانڈیں چودنے کے لیے ملیں گی لیکن ایک خیال رکھنا کہ کبھی بھی ان چدائیوں کے تعلق آپس میں یہان بات نہیں کی جاتی کیونکہ چوتیں اور گانڈیں مارنے کی باتیں کرنے کا رواج نہیں رکھا گیا اور جو ایسی بات کرتا ہے اسے ایک وارننگ دی جاتی ہے اور پھر دوسری غلطی پر گروپ سے نکال دیا جاتا ہے اس لیے کبھی مزے لینے کے لیے کسی سے بھی چدائی کی بات نہیں کرنا۔۔ میں نے کہا کہ نہیں کروں گا بس چدائی ہی کروں گا اور مجھ سے بہتر کوئی چدائی نہیں کر سکتا۔۔۔ میں خوش ہو گیا اور کہا کہ میں اپنی ہونے والی بیوی کو بھی یہاں لایا کروں گا ایسی پارٹیوں میں۔۔۔ اور پھر ڈیڑھ گھنٹہ شمائلہ کی چدائی کی ۔۔۔ گانڈ اور پھدی میں زوردار چدائی کی اور پھر میں نے وقت دیکھا تو ساڑھے نو بج چکے تھے میں نے سوچا کہ گیارہ بجے فریحہ کو بھی اٹھانا ہے اور اس سے پہلے مونا کو بتانا ہے کہ اس بار تم میرے ساتھ لاہور نہیں جا رہی ہو اگلے ہفتے آؤں گا تو چلیں گے۔۔۔ یہ سوچ کر میں نے چدائی تیز کر دی اور شمائلہ کی گانڈ میں لوڑا ڈال کر جڑ تک گھسا دیا میرا تو دل تھا کہ میرے ٹٹے بھی اس کی گانڈ میں چلے جائیں یا کم از کم لوڑا گانڈ میں اور ٹٹے چوت میں گھس جائیں لیکن ایسا ہو نہیں پا رہا تھا۔۔۔ میں اب ڈسچارج ہونے کے قریب تھا۔۔۔ جڑ تک لوڑا گانڈ میں گھسا کر آگے دھکے لگا رہا تھا اور پھر یکدم میں نے محسوس کیا کہ شمائلہ ڈسچارج ہو رہی ہے اور اس کی گانڈ مزید ٹایٹ ہو گئی ہے تو میرا لوڑا بھی اگلنے کے لیے تیار ہو گیا اور دو منٹ بعد ہی میرا لوڑا شمائلہ کی گانڈ میں اپنا مال نکال چکا تھا۔۔۔ میں پانچ منٹ بعد اٹھا اور نہایا۔۔ تیار ہوا اور ہلکا سا ناشتہ کر کے نکلنے کے لیے تیار ہو گیا۔ شمائلہ نے اپنے بچوں کے سامنے مجھ سے پوچھا کہ بھائی اب کب آئیں؟ میں نے فریحہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ بس تین چار دن کا ایک کام ہے اس کے بعد آؤں گا۔۔۔ میں نکلنے لگا تو فریحہ کہنے لگی کہ انکل مجھے سکول تک چھوڑ دیں گے؟ میں نے کہا کہ جی بیٹا آ جائیں میں چھوڑ دیتا ہوں۔۔ ملیحہ اور جگنو بھی تیار تھے میں نے انہیں کہا آپ بھی آ جاؤ۔۔ چنانچہ میں نے پہلے ملیحہ کو اس کے سکول اتارا پھر جگنو کو اتارا اور پھر فریحہ سے پوچھا کہ اب کیا پروگرام ہے؟ فریحہ کہنے لگی کہ چلیں سیدھے لاہور۔

میں نے کار موٹر وے کی طرف موڑ دی۔۔ رستے میں ایک بار رکے کچھ کھایا پیا اور پھر عازمِ سفرہوئے اور خوش گپیاں لگاتے لاہور پہنچے۔۔ میرا خانساماں کھانا پکا کر جا چکا تھا اور میں نے دروازے سے بھی فریحہ کو اٹھا لیا اور ہم کسنگ کرتے کرتے گھر کے اندر داخل ہوئے اور میں اس کو لے کر سیدھا چدائی روم میں چلا گیا۔۔ فریحہ پوچھنے لگی کہ انکل یہ آپ کا بیڈ روم ہے؟ میں نے بتایا کہ نہیں یہ میرا بیڈ روم نہیں ہے بلکہ یہ چدائی روم ہے جس میں اور میرے دوست وغیرہ پھدی اور لوڑے کا کھیل کھیلتے ہیں کیونکہ میں اپنے پرسنل بیڈ روم میں کسی کی چدائی نہیں کرتا نہ آج تک کسی کو اپنے بیڈ روم میں چودا ہے۔۔۔ تو فریحہ کہنے لگی کہ اگر میں کہوں کہ میری سیل اپنے بیڈ پر توڑیں تو ؟میں نے کہا کہ اگر تم یہ چاہو گی کہ میں اپنے موٹے اور لمبے لوڑے سے تمہاری پھدی کا خون خرابہ کروں تو میں اس کے لیے اپنا یہ قانون توڑ سکتا ہوں۔۔ تو فریحہ کہنے لگی کہ پھر مجھے اٹھا کر اسی روم میں لے جائیں اور میری سیل توڑ دیں۔۔۔ میں نے وہیں سے موڑ کاٹا اور اپنے بیڈ روم تک پہنچتے پہنچتے اپنے اور اس کے کپڑے اتار چکا تھا۔۔۔ اور بیڈ پر اس کو پھینک کر 69 پوزیشن میں آ گیا اور اس کی پھدی کو زور شور سے چوسنے لگا۔۔۔ مجھے لگ رہا تھا کہ آج میں ایک ایسی نوعمر لڑکی کی بہت ظالمانہ طریق پر سیل توڑنے والا ہوں جو گانڈ مروانے میں ماہر ہے اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ میں ایک ہی جھٹکے میں یہ خون خرابہ کر دوں گا۔۔۔۔ تھوڑی دیر فریحہ کی پھدی چوسنے اور اپنا لوڑا چسوا کر میں نے اچانک اس کی ٹانگیں سیدھی کیں اور کی پھدی کی طرف آ گیا کیونکہ اس کی پھدی کافی لیس دار پانی چھوڑ رہی تھی۔۔۔۔ میں نے جیسے ہی دیکھا کہ پھدی کی موری میرے لوڑے کی سیدھ میں آ گئی ہے تو میں نے لوڑا پھدی کے دانے پر دو تین بار رگڑا اور پھر یکدم پھدی کے سوراخ پر رکھ کر جڑ تک لوڑا اندر گھسا دیا۔۔۔۔ فریحہ کی پھدی پھٹ گئی اس نے ایک زور دار چیخ ماری اور بے ہوش ہو گئی۔۔۔ میں نے اس کو اسی حالت میں زور شور سے چودنا شروع کر دیا۔۔۔ میری بیڈ شیٹ لال ہو چکی تھی۔۔۔ فریحہ کی سیل ٹوٹ چکی تھی اور میں اس کا ظالم انکل۔۔۔ اس کی ماں اور چھوٹی بہن کا ٹھوکو بن چکا تھا اور یہ میری بہت بڑی کامیابی تھی کہ میں فریحہ کی سیل توڑنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔۔۔ میں نے فریحہ کے بے ہوش ہونے کی پروا نہ کرتے ہوئے اسے چودتا رہا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ ابھی تھوڑی دیر میں وہ ہوش میں آئے گی اور پھر چدائی میں میرا ساتھ دینے لگے گی۔وہی ہوا کہ فریحہ تھوڑی ہی دیر میں ہوش میں آ گئی اور پھر اس نے شکوہ کرنے کی بجائے میری تعریف کی کہ میں نے آج تک اس طرح کا چودنے والا نہیں دیکھا جو اتنا اذیت ناک مزہ دے۔ میں آپ سے بہت خوش ہوں۔۔۔ اس بات نے میرا جوش اور بڑھا دیا اور میں اس کی گانڈ اور ایک گھسا اس ی چوت میں مارنے لگا۔ خون آلود لوڑا اس کی گانڈ میں گھساتا اور پھر گانڈ سے نکال کر اس کی پھدی میں ڈال دیتا پھر میں اس کو اٹھا کر باتھ روم لے گیا اور وہاں باتھ ٹب میں گرم پانی ڈال کر لوڑا اندر ڈالے ڈالے پہلے تو اس کی خوب چدائی کی اور پھر پھر گانڈ میں لوڑا گھسا کر پورا اندر گھسیڑ دیا اور جڑ تک گھسا کر مکمل زور اندر کی طرف لگایا۔۔۔ وہ مزے اور درد سے پاگل ہو کر چیخ رہی تھی کہ انکل میری گانڈ پھاڑ دو ۔۔ انکل آپ سے پہلے اس طرح مجھے کسی نے بے دردی سے نہیں چودا۔۔۔ یہ بات میرا جوش بڑھانے کے لیے کافی تھی اور میں اسے مزید بے دردی سے چودنے لگا۔۔۔ باہر میرے فون کی بیل بج رہی تھی لیکن اندر میں فریحہ کی چھوٹی سی پھدیا اور گانڈ کو کسی درندے کی طرح چود رہا تھا۔۔

میں نے نان سٹاپ فریحہ کو چودنا جاری رکھا اور جلد ہی وہ ہوش میں آ گئی اور اس نے ہوش میں آتے ہی مجھ سے کہا کہ کمال کر دیا آپ نے میں سمجھتی تھی کہ اگر میں بے ہوش ہو گئی تو آپ مجھے چودنا بند کر دیں گے لیکن آپ نے تو مجھے چودنا بند نہیں کیا اور اب مجھے مزہ ہی مزہ آ رہا ہے اور آپ کی بیڈ شیٹ میری چوت کے خو سے رنگین ہو چکی ہے۔ اس کے بعد میں نے فریحہ کو مسلسل ایک گھنٹہ چودا کیونکہ آج میں نے پوری گولی کھائی ہوئی تھی۔ میں چاہتا بھی یہی تھا کہ پہلی بار جتنا زیادہ سے زیادہ چود سکوں اتنا ہی بہتر ہے پھر اس کی چھوٹٰ بہن کی سیل پر بھی میری توجہ پوری طرح مرکوز تھی کہ وہ بھی میں ہی توڑوں اور فریحہ اگر اس کے سامنے میری چدائی کا ذکر کرے گی جو کہ لازماً کتے گی تو وہ بھی مجھ سے اپنی سیل تڑوانے پر آمادہ ہو جائے گی اور پھر دونوں بہنیں میرے گھر کئی کئی دن رہ سکتی ہیں۔ اور ان کی سہیلیاں کو بھی یہاں لایا جا سکتا ہے۔ دو دن فریحہ میرے پاس رہی تو مسلسل دو دن ہم نے بے حد چدائی کی اور پھر فریحہ کہنے لگی کہ اب مجھے واپس جانا چاہئے تو میں نے کہا کہ ٹھیک ہے میں تمہیں واپس ڈراپ کر دیتا ہوں۔ تو کہنے لگی کہ ہاں مجھے گھر کے قریب اتار دیں لیکن ابھی آپ نے آج ہی ہمارے گھر نہیں جانا کیونکہ میں نے یہ بتایا نہیں ہوا کہ میں آپ کے ساتھ ہوں ورنہ امی جان ناراض ہوں گی۔ میں نے کہا کہ نہیں میں آج نہیں بلکہ کچھ دن کے بعد تمہاری طرف چکر لگاؤں گا تا کہ کسی کو شک نہ ہو۔ پھر کہنے لگی کہ اس کے بعد میں اور میری چھوٹی بہن دونوں آپ کے ساتھ آئیں گی۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ ہم جلدی سے تیار ہوئے اور پھر ایک کسنگ کا لمبا سیشن چلا اور اس کے بعد میں نے ایک بہترین ریسٹورنٹ سے فریحہ کو کھانا کھلایا اور پھر واپسی کی راہ لی۔ فریحہ کو اس کے گھر کے قریب چھوڑا اور اس کے جانے کے بعد میمونہ کا کال کی تو اس نے بتایا کہ وہ میرے ہی بارے سوچ رہی تھی میں نے کہا کہ تیار ہو؟ کہنے لگی کہ ہر وقت تیار ہوں آپ آ جائیں لینے۔ میں نے کار میمونہ کے ہوسٹل کی طرف موڑ دی جہاں سے اسے پک کیا اور اس سے کہا کہ کہاں چلنا ہے؟ کہنے لگی کہ سہاگ رات تو گھر میں ہی منانی چاہئے نہ کہ کسی ہوٹل میں۔ ۔۔۔۔ میں اس کی بات سن کر باغ باغ ہو گیا۔۔۔ میں نے سوچا کہ میمونہ کی چدائی آج کی رات ہی ہو جائے گی۔ خفیہ کیمرے تو میرے گھر میں ہر کونے میں تھے جن سے میں سب کی ویڈیوز بناتا تھا اور پھر بعد میں دیکھا کرتا تھا۔۔۔۔ اتنے میں حنا کا فون آیا۔۔ میں نے حنا سے کہا کہ میں تو شہر سے باہر ہوں اور تین چار دن لگ جائیں گے۔

رات کو ہم لاہور پہنچے اور سب سے پہلے یمونہ کی پسند کا ڈنر کیا اور میں نے فرائی فش کھائی تا کہ رات کو ٹھیک طرح سے چدائی کر سکوں کیونکہ میں کافی دن سے نئی نئی پھدیاں مار رہا تھا اور گانڈیں بھی ماری تھیں اور چھوٹی عمر کی لڑکیاں تو زیادہ انرجی لیتی ہیں اس لیے مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ جسمانی کمزوری ہو اور میمونہ کو چودنے میں کوئی دقت ہو اور میرا تجربہ تھا کہ اگر میں نے پیٹ بھر کر دو وقت مچھلی کھائی ہوئی ہو تو کوئی گولی کھانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اس لیے میں نے مچھلی خود بھی کھائی اور میمونہ کو بھی کھلائی کیونکہ اس میں وٹامن ای ہوتا ہے اور کسی بھی لڑکی کو سیکس کے لیے تیار کرنے کا وٹامن ای بہترین ٹانک ہے۔ میں نے ایک بار ایک ایسی لڑکی کو وٹامن ای کے کیپسول کھلا کر راضی اور تیار کیا تھا جو کئی ماہ تک پھدی مروانے پر تیار نہیں ہو رہی تھی پھر میں نے اسے بہانے سے ایک ہفتہ ای ویان کیپسول کھلائے اور ایک ہفتے بعد ہی وہ ایک رات اس قدر گرم ہو گئی کہ مجھ سے اچانک چد گئی۔ چنانچہ کھانا کھانے کے بعد ہم نے آئس کری کھائی اور پھر گھر کی راہ لی۔ میمونہ نے جھجکتے ہوئے کہا کہ گھر پر کوئی ہے یا ہم ہی ہوں گے؟ میں نے کہا کہ کوئی بھی نہیں ہے اور ہم اکیلے ہی ہوں گے۔ میمونہ شرما گئی اور بنتا بھی تھا۔۔۔ آج اس کی سیل ٹوٹنے والی تھی۔۔۔ کوئی دس منٹ بعد میں نے محسوس کیا کہ مجھ پر سیکس سوار ہونا شروع ہو گیا ہے اور میمونہ نے مخمور لہجے میں مجھ سے پوچھا کہ کتنی دیر میں ہم گھر پہنچیں گے؟ تو میں سمجھ گیا کہ اس پر بھی سیکس سوار ہو رہا ہے۔ میں نے پوچھا کہ خیر ہے اتنی جلدی کیا ہے؟ ابھی میرا دل ہے کہ کسی پارک مٰں چلتے ہیں تھوڑی واک کرتے ہیں پھر گھر چلے جائیں گے ۔۔۔۔۔ کہنے لگی کہ نہیں پہلے گھر چلتے ہیں نا۔۔۔ میں نے کہا کہ جیسے تم کہو۔۔ میرا بھی پینٹ میں کھڑا ہو رہا تھا۔۔ دس منٹ بعد ہی ہم گھر تھے اور پھر دروازہ کھولتے کھولتے میمونہ نے مجھے پکڑ لیا اور میرے نہ میں منہ ڈال کر چومنے لگی۔۔ میں حیران ہو گیا کہ اتنی گرم ہو چکی ہے کہ ذرا گھر کے اندر جانے کا بھی انتظار نہیں کیا۔۔۔ میں نے بھی پکڑ لیا اور جوں توں کر کے دروازہ کھولا اور اتنی دیر میں میمونہ اپنے کپڑے اتار چکی تھی اور میں نے بھی کچھ دیر کیے بغیر اپنے کپڑے اتار دیئے ۔۔۔ میمونہ نے موقع ہی نہ دیا کہ میں لوڑا اس کے منہ میں ڈالتا یا اس کی پھدی چوستا ۔۔ بیڈ روم میں پہنچتے ہی میں نے کو بیڈ پر دھکا دیا اور اس کی ٹانگیں اٹھا کر دیکھا تو ا س کی پھدی مٰں سے پانی نکل رہا تھا۔۔۔ مست خوش بو تھی جو اس کی چوت سے اٹھ رہی تھی۔۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور اس کی ٹانگیں اٹھا کر اپنا لوڑا اس کی موری پر سیٹ کیا اور ایک ہی جھٹکے میں اندر گھسا دیا۔۔۔ میمونہ کی چیخیں نکل گئیں لیکن یہ تو ایک دن ہونا تھا اور آج ہی ہو گیا۔۔۔ میں نے خود کو روکا نہیں اور جڑ تک لوڑا اندر گھسا کر پورا زور لگا دیا کہ ذرا سا بھی باہر نہ رہ جائے۔۔۔ کوئی دو منٹ تک میں نے فل زور اندر کی طرف گلگا کر رکھا اور پھر باہر نکال کر دوبارہ اندر ڈالا اور پھر زور زور سے میمونہ کی چدائی شروع کر دی۔۔۔ دھپ دھپ دھپ کی آوازیں گونج رہی تھیں اور مونا کی مزے لینے کی آوازیں بھی آ رہی تھیں ایک بار پھر میرے بیڈ روم کی بیڈشیٹ لال ہو چکی تھی۔۔ بہت خون نکل رہا تھا لیکن میں اس بات کی پروا کیے بغیر میمونہ کو مسلسل چود رہا تھا ۔۔۔ مونا کی سیل ٹوٹ چکی تھی۔۔۔ میرا لوڑا اس کی پھدیا کا خون خرابہ کرنے کے بعد مزید پھن پھیلائے اندر پھولتا جا رہا تھا۔۔

تین دن میمونہ کی چدائی چلتی رہی اور دن رات ہم نے یہ کھیل کھیلا اور پھر میمونہ نے کہا کہ اب ہمیں واپس چلنا چاہیے۔ میمونہ نےبتایا کہ وہ اپنے والدین کی اکیلی اولاد ہے اور ایک بھائی تھا جو چھوٹی عمر میں ہی وفات پا گیا تھا جس کی وجہ سے اس کی والدہ کے ذہن پر اثر ہو گیا تھا لیکن اب وہ ٹھیک ہیں اور میں انہیں بیٹا بن کر دکھاتی ہوں۔ میں نے کہا یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ پھر کہنے لگی کہ میں نے آپ کو سب کچھ دے تو دیا ہے لیکن میں اس طرح کی لڑکی نہیں ہوں۔ میں نے کہا کہ میں جانتا ہوں اور اچھی طرح سے جانتا ہوں تم فکر نہ کرو میں کبھی بھی یہ بات باہر نہیں جانے دوں گا۔ پھر رونے لگی کہ میں آپ سے شادی نہیں کر سکتی کیونکہ میں لیزبین ہوں۔ میں نے کہا کہ کوئی بات نہیں تم ثنا کے ساتھ لیزبین ہو تو ثنا سے پوچھ لیں گے اور تم دونو کے ساتھ شادی کر لوں گا اور تینوں اکٹھے رہیں گے اگر تم میرے ساتھ سیکس نہ بھی کرنا چاہو گی تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ مجھے تم سے پیار ہے اور تمہیں بھی مجھ سے پیار ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ تم نے لیزبین ہوتے ہوئے بھی مجھے اپنے اندر لوڑا ڈالنے کی خوشی خوشی اجازت دی ہے۔ کہنے لگی کہ ثنا نے یہ کہا تو تھا لیکن احمد اس بات کو ہم پھر پر اٹھا رکھتے ہیں لیکن آپ جب چاہیں میں آپ کے ساتھ ہوں۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے اور پھر ہم واپس نکل کھڑے ہوئے۔ میں نے شمائلہ بہن کو کال کر دی تھی کہ میں فیصل آباد آ رہا ہوں اور اس بار پارٹی رکھنی ہے یا گھر کی چدائی ہی ٹھیک رہے گی تو شمائلہ کہنے لگی کہ بھائی جان ! آج رات تو ہم تینوں آپ سے اچھی طرح ٹھکوائیں گی کیونکہ آپ کے بہنوئی آپ سے بہت خوش ہیں اور آج آپ میرے بیڈ پر ہم تینوں ماں بیٹیوں کی ان کے سامنے چدائی کریں گے اور کل رات کو پارٹی ہے۔ میں خوش ہو گیا۔

میں نے میمونہ کو لیا اور ہم واپس اس کے ہوسٹل چلے گئے اور اسے اتار کر میں سیدھا شمائلہ کے گھر چلا گیا۔ راستے میں کچھ گولیاں لے لیں تا کہ رات کو جم کر تینوں ماں بیٹیوں کی ٹھکائی کر سکوں اور وہیں سے میں نے اپنے شہزاے عامر کو کال کی کہ میمونہ کے ساتھ ہنی مون منا لیا ہے اور اگر وہ بتائے کہ وہ کب اسے چودنا چاہتا ہے تا کہ اس کا انتظام کیا جا سکے۔عامر بہت حیران ہوان کہ سر بس ایک مہینے میں ہی آپ نے اسے چود بھی لیا؟ میں نے کہا کہ ہاں اور اس کے ساتھ کئی ایک دوسری شہزادیاں بھی چد گئی ہیں۔ خیر میں نے اسے کہا کہ آپ کے سر کے گھر کل پارٹی ہے کہو تو اس میں تمہیں لے چلوں؟ کہنے لگا کہ نیکی اور پوچھ پوچھ؟

میں نے کہا کہ کل تیار رہنا۔یہ کہہ کر میں نے کار شمائلہ بہن کے گھر کو موڑ دی اور سیدھا ان کے گھر جا کر بریک لگائی۔ میرا انتظار ہو رہا تھا۔۔۔ سارا گھر چہک اور مہک رہا تھا۔۔۔ سر تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے اور شمائلہ، فریحہ اور ملیحہ کے پاؤں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔۔ میں نے آتے آتے تینوں بچوں اور شمائلہ بہن کے لیے گفٹ لے لیے تھے جو انہیں تھما دئیے۔۔۔ تھوڑی دیر بعد کھانا ہوا پھر ہم سب آئس کریم کھانے باہر چلے گئے اور آئس کریم کھا کر واپس ہوئے تو سر کہنے لگے کہ میری تو طبیعت خراب ہو رہی ہے اس لیے میں تو دوا کھا کر سونے لگا ہوں احمد آپ گیسٹ روم میں سو جائیں اور کل ہمارے چند دوست انوائیٹڈ ہیں ایک پارٹی ہے آپ اس میں شامل ہو کر واپس جانا میں نے کہا کہ فکر نہ کریں اب میں یہیں ہوں۔

سر اپنے کمرے میں چلے گئے اور پتہ نہیں دوا لی یا ہمیں گلی کروائی ۔ میں نے کافی پی، فریحہ اور ملیحہ مجھے پیار کر کے میرے کان میں کہہ کر سونے چلی گئیں کہ بھائی کو سلا کر ہم بھی آ رہی ہیں۔ شمائلہ کہنے لگی کہ آپ کو میسج کروں گی تو آپ بیڈ روم میں آ جانا۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہےاور میں بھی گیسٹ روم میں چلا گیا۔ جیسے ہی میں نے گیسٹ روم کا دروازہ کھولا تو اندر ملیحہ کھڑٰ تھی۔ اس کے بدن پر لباس نہیں تھا اور وہ مجھے دیکھتے ہی لپٹ گئی اور کسنگ کرنے لگی۔ میں نے بھی اسے گود میں اٹھا لیا اور پیار کرنے لگا۔ وہ مجھ سے کہنے لگی کہ انکل اب سیل توڑنے کی باری میری ہے۔ میں نے کہا کہ کب کا پروگرام ہے؟ کہنے لگی کہ اب جب آپ واپس جائیں گے تو میں اور فریحہ باجی آپ کے ساتھ جائیں گے۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے ڈن! تمہاری پھدی میں میرا لن!! باتیں کرتے کرتے ہم بیڈ تک آ گئے اور میں نے اسے بیڈ پر لٹا کر اپنے کپڑے اتار دیئے اور ننگا ہو کر اس کے ساتھ لیٹ گیا۔ اتنی دیر میں ملیحہ بھی آ گئی اور وہ بھی ننگی ہی تھی۔ آتے ہی میرے لوڑے سے لپٹ گئی جو پہلے ہی بے چین ہو رہا تھا۔ ابھی اس نے میرا لوڑا منہ میں ڈالا ہی تھا کہ شمائلہ کا میسج آ گیا کہ دونوں بچیوں کو اٹھا کر میرے پاس لے آئیں۔۔۔ میں حیران ہو گیا کہ اسے پتہ ہے کہ دونوں بچیاں میرے پاس ہیں تو میں بھی دونوں بچیوں کو اٹھا کر سر کے بیڈ روم کی طرف چلا گیا۔۔۔۔ کیا دیکھتا ہوں کہ سر ننگے سوئے پڑے ہیں اور شمائلہ ننگی بیڈ پر لیٹی ہوئی ہے میں نے دونوں بچیوں کو اٹھایا ہوا تھا سو میں بھی ننگا ہی تھا اور میرا لوڑا فل ٹنا ٹن بج رہا تھا۔ میں نے ابھی دونو بہنوں کو اتارا نہیں تھا کہ شمائلہ نے میرا لوڑا منہ میں ڈال لیا ادھر دونوں بہنیں میرے ساتھ کسنگ کر رہی تھیں۔۔۔ دو نوں نیچے اتریں اور ملیحہ سیدھی اپنے باپ کے لوڑے پر چلی گئی اور شمائلہ نے مجھے کہا کہ ملیحہ کے ہیچھے جا کر پہلے اس کی گانڈ میں ڈال دیں اور تھک وغیرہ لگانے کی ضرورت نہیں۔۔۔ میں نے حکم مانا اور سیدھا ظالمانہ انداز میں 15 سالہ 32 سائز مموں والی چھوٹی سی لڑکی کی گانڈ میں 8 انچ لمبا اور ساڑحے پانچ انچ موٹا لوڑا گھسا دیا ۔۔۔۔ وہ مزے سے سسکاری لے کر بولی انکل زور سے اندر تک گھسا دو۔۔۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ سیدھا اندر جڑ تک گھسیڑ دیا۔۔۔۔ اس نے اپنے ابو کا لوڑا بھی منہ میں ڈالا ہوا تھا اور اس کا ابو مست لیٹا ہوا تھا۔۔۔ شمائلہ نے فریحہ کی پھدیا چاٹنی شروع کی۔۔۔ میں نے تھوڑی دیر ملیحہ کی گانڈ ماری اور پھر سیدھا شمائلہ کی گانڈ پر آ گیا ۔۔۔ دس منٹ کے بعد ہی فریحہ کی گانڈ کی بھی لوڑے کو سیر کروا دی اور پھر باری باری تینوں کی گانڈ مارتا رہا ملیحہ اور فریحہ جب مجھ سے فارغ ہوتیں تو اپنے اب کے تنے ہوئے لن پر جا بیٹھتی تھیں یوں میں باری باری ان تینوں کی گانڈ اور شمائلہ اور فریحہ کی پھدیا کو بھی چودتا رہا۔ کوئی تین ساڑحے تین گھنٹے بعد میں نے کہا کہ اب بس کرنا چاہیے کیونکہ کل کی پارٹی میں بھی اسے استعمال کرنا ہے۔ شمائلہ کہنے لگی کہ بالکل ٹھیک ہے۔ میں نے کہا کہ میں دونو بچیوں کو لے جا رہا ہوں۔۔۔ یہ آج میرے ساتھ ہی سوئیں گی۔۔ شمائلہ نے کہا کہ ٹھیک ہے پھر میں دونوں بہنو ں کو اٹھا کر واپس اپنے گیسٹ روم میں لے آیا جہاں ایک گھنٹہ مزید میں نے دونوں بہنوں کی گانڈ اور فریحہ کی چوت بھی ماری اور پھر ملیحہ کی گانڈ میں اپنا لوڑا نچوڑ دیا۔۔۔۔ میں نڈھال ہو چکا تھا۔۔۔ دونوں بچیاں میرے دائیں اور بائیں لیٹ کر سو گئیں۔۔

صبح میری آنکھ کھلی تو دیکھا کہ ملیحہ میرا لوڑا منہ میں ڈالے چوس رہی ہے جبکہ فریحہ بے خبر سو رہی تھی۔ میں نے ملیحہ کے چوتڑوں پر ہاتھ پھیرنا شروع کیا اور میرا لوڑا فل ٹائٹ تھا اور وہ بڑے مزے سے چوس رہی تھی۔ میں اس کی 32 بھی کم سائز کے بوبز بھی چھیڑ رہا تھااور ایک ہاتھ سے اس کی پھدی کا دانہ بھی چھیڑ رہا تھا۔۔۔۔ پھر میں نے تھوک لگا کر اپنی انگلی اس کی گانڈ کے سوراخ پر رکھی اور اندر گھسا دی۔۔۔ تھوڑی دیر یہی حالت رہی پھر وہ میرے لوڑے پر آ گئی اور اپنی گانڈ کا سوراخ میرے لوڑے پر فٹ کر کے یکدم اس کے اوپر بیٹھ گئی۔۔۔ میرا لوڑا سیدھا اس کی ملائم سی گانڈ میں گھس گیا۔۔۔ ملیحہ مزہ کرنے لگی۔۔۔ تھوڑی دیر مزہ کرنے کے بعد اس نے کہا کہ انکل مجھے کتیا بنا کر چودیں۔۔۔ پھر میں نے اسے کتیا بنا کر چودنا شروع کیا اور میں نے اسے پوچھا کہ رات پارٹی کیسے ہو گی؟ تو وہ بتانے لگی کہ سبھی انکل، ان کی بیویاں اور بیٹیاں اور جن کے جوان بیٹے ہیں سبھی آئیں گے اور پھر سبھی ہلکی سی روشنی میں جسے چاہیں چودیں گے اور آج آپ کے لوڑے کی موج لگنے والی ہے کیونکہ میں نے سبھی آنٹیوں اور ان کی بیٹیوں کو بتایا ہے کہ آج احمد انکل بھی پارٹی کا حصہ ہوں گے جن سے بہتر چدائی کا کوئی ماسٹر میں نے اپنی زندگی میں اپنے ابو کے علاوہ نہیں دیکھا۔ سبھی آنٹیاں اور ان کی بیٹیاں شدت سے رات کا انتظار کر رہی ہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ آج رات تو بہت رنگین ہونے والی ہے۔۔۔ ملیحہ نے مزید بتایا کہ آپ اگر گیسٹ روم میں آ جائیں گے تو سب آنٹیاں اور لڑکیاں دو دو کر کے یا تین تین کر کے باری باری آپ سے یہاں آ کر بھی چدائی کروا سکتیں گی۔۔۔ اور مجھے بھی سبھی انکل اور ان کے بیٹے خب چودتے ہیں اور آج تو فریحہ باجی کی پھدی اور گانڈ دونوں میں لوڑے اکٹھے جائیں گے۔۔۔ ابو کا پروگرام ہے کہ وہ اور آپ مل کر فریحہ کو گانڈ اور پھدی میں چودیں گے۔۔۔ میں بڑا حیران تھا کہ اتنی زبردست پلاننگ ہے اور ملیحہ کو بھی اس پلاننگ کا علم ہے۔۔۔ خیر میں نے سچا کہ میں کچھ گولیاں لے آؤں اور شمائلہ سے کہہ کر مچھلی تیار کرواؤں تو جیسے ملیحہ نے میرا ذہن پڑھ لیا ہو وہ کہنے لگی کہ انکل آپ کو پتہ ہے کہ آج کے کھانے میں جھینگا مچھلی اور کچھ خاص قسم کا کھانا ہو گا جس سے مردوں کی شہوت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور وہ زیادہ اچھی طرح چدائی کر سکتے ہیں۔۔۔ میں نے کہا کہ اچھا۔۔۔۔ اب میرا پروگرام تھا کہ اس کو چھوڑ کر نہاؤں اور شام تک پھر آرام کر لوں۔۔۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ شمائلہ کی آواز آئی کہ احمد اب بس کر دیں۔۔۔ میں نے کہا کہ میں نے تو کچھ نہیں کیا یہ ملیحہ کی گانڈ میں آگ لگی ہوئی تھی وہ بجھا رہا ہوں۔۔۔ ملیحہ کہنے لگی کہ آپ کا لن اتنا اچھا ہے کہ میرا دل کر رہا ہے ابھی آپ سے اپنی ننھی منی سیل بند پھدیاکی سیل تڑوا لوں لیکن یہ وعدہ اب لاہور میں آپ کے گھر پر پورا ہو گا۔۔۔ میں نے یہ کہا کہ چلیں اب نہاتے ہیں۔۔۔ اور ملیحہ کو اٹھا کر اس کی گانڈ میں لوڑا ڈالے ڈالے ہی باتھ میں گھس گیا اور تھوڑی دیر وہاں اس کو چودا اور ساتھ ساتھ شاور چلا کر نہاتا رہا۔۔۔ پھر ہم دونوں نے اچھی طرح نہا کر تولیے لپیٹے اور بیڈ روم میں واپس آ گئے۔۔۔۔ جہاں شمائلہ نے میرے لیے کافی اور ملیحہ کے لیے جوس رکھ دیا ہوا تھا سو میں نے کافی پی اور ملیحہ نے جوس پیا اور ہم دونوں نے کپڑے پہنے اور باہر نکل آئے۔۔۔ باہر سر اور شمائلہ ہمارا انتظار کر رہے تھے۔۔

سر نے مسکراتے ہوئے پوچھا کہ کیسی رہی رات؟ میں نے کہا کہ جناب آپ کی مہمان نوازی کا تو کوئی جواب ہی نہیں ہے۔ کہنے لگے کہ بس ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے کسی مہمان کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ میں نے کہا کہ آپ تو عملی طور پر اس کا ثبوت بھی مہیا کر رہے ہیں اور مجھے تو کوئی تکلیف نہیں ہو رہی۔۔۔ سر کہنے لگے کہ اگر آپ کسی دوست کو یا اپنی ہونے والی بیوی کو بلانا چاہیں تو پارٹی میں بلا سکتے ہیں۔۔ یک دم میرے ذہن میں ثنا کا نام آیا۔۔ میں نے کہا کہ سر ابھی تو وہ میری بیوی نہیں بنی لیکن جیسے ہی میری بیوی بن گئی میں سب دوستوں کو خود پارٹی دوں گا اور ہم سب مل کر پی سی مری جائیں گے اور وہاں ایک رات کا قیام میری طرف سے ہوگا۔ رہا آج کی پارٹی کا سوال تو اس کے لیے میرے پاس ایک ایکسپرٹ دوست موجود ہے اسے کال کرتا ہوں اگر وہ یہاں ہوئیں اور ان کی بکنگ نہ ہوئی تو وہ آ جائیں گی ورنہ اگلی بار سہی۔ سر نے کہا کہ ٹھیک ہے اور ان کی آنکھوں کی چمک بتا رہی تھی کہ وہ کئی نئی پھدی یا گانڈ مارنا چاہتے ہیں۔ پھر میں نے ثنا کو کال کی اور اس سے پوچھا کہ تم کہاں ہو؟ اس نے بتایا کہ میں فیصل آباد میں ہی ہوں اور آج اکیلی ہوں کیونکہ میمونہ امی ابو سے ملنے چنیوٹ گئی ہوئی ہے۔ میں نے کہا کہ آج رات ایک پارٹی ہے جس میں کوئی تیس کے قریب لوگ شامل ہونے والے ہیں آپ کا کیا خیال ہے؟ کہنے لگی کہ اس پارٹی کے لیے کپڑے کون سے پہنوں؟ میں نے کہا کہ کوئی بھی سیکسی سے پہن لو تو کہنے لگی کہ سب پرانے ہو چکے ہیں میں نے کہا کہ نئے لے لو میں پے کر دیتا ہوں۔ کہنے لگی کہ ایسے نہیں خود آئیں اور شاپنگ کروا دیں۔ میں نے کہا کہ ابھی آ جاتا ہوں۔۔۔ یہ کہہ کر میں نے سر سے کہا کہ آپ لوگ تیاری کریں میں دوست کو لے آتا ہوں۔۔۔ سر نے کہا کہ آج کا سپیشل کھانا کہیں سے بن کر آئے گا اور سرو کرنے کے لیے ویٹرسز بھی باہر سے آئیں گی اس لیے پکانے کی فکر نہیں ہے آپ جائیں اور تسلی سے دوست کو لے آئیں۔۔۔ میں نے کہا کہ آپ کو مزہ آ جائے گا فریحہ اور ثنا۔۔۔ دونوں کو مل کر چودیں گے۔۔۔۔سر نے اپنی بیگم سے کہا کہ جاؤ سر کو باہر تک چھوڑ آؤ۔۔۔ شمائلہ باہر تک آئی اور مجھ سے کہنے لگی کہ آج تو خوب چدائی کا موقع ملے گا۔۔۔ میں نے کہا کہ آپ کی طرف تو ہر بار خب موقع ملتا ہے جناب۔۔۔ یہ کہہ کر شمائلہ سے چمٹ گیا اور کسنگ کرنے لگا۔۔۔ تقریبا پانچ منٹ کسنگ کے بعد میں نے کار نکالی اور سیدھا ثنا کے ہوسٹل پہنچا وہ باہر آ چکی تھی اسے اٹھایا اور شاپنگ کے لیے اس کی پسندیدہ مارکیٹ چلا گیا وہاں سے اس نے شاپنگ کی اور ہم سیدھے سالٹ اینڈ پیپر پر گئے وہاں سے کچھ تھوڑا بہت کھانا کھایا اور وہیں ثنا نے ایک بار مجھ سے چدائی بھی کروا لی۔۔۔ باہر نکلے اور سیدھے سر کے گھر پہنچ گئے۔۔۔ سر اور ثنا ایک دوسرےکو جانتے تھے لیکن ثنا کو معلوم نہیں تھا کہ سر ایسے ہیں اور نہ ہی سر کو معلوم تھا کہ ثنا چدواتی ہے کیونکہ ثنا ان کی شاگرد نہیں تھی یونیورسٹی میں پڑھنے کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے کو جانتے تھے۔۔۔ اب ثنا کو معلوم ہو گیا کہ میمونہ اس سر کے پیپر میں کیوں بار بار فیل ہوتی تھی اور تیسری بار کیسے پاس ہو گئی۔۔۔۔ ثنا بھی شمائلہ، فریحہ اور ملیحہ سے مل کر بہت خوش ہوئی۔۔۔ وہ بھی بہت خوش ہوئیں اور فریحہ اور ملیحہ اسے باجی باجی کہہ کر اپنے روم میں لے گئیں اور اس کی ضیافت کرنے لگیں۔۔۔۔ سر نے مجھ سے کہا کہ اس لڑکی کو میں جانتا ہوں لیکن یہ میری براہِ راست شاگرد نہیں ہے۔۔۔ میں نے کہا کہ یہ میمونہ کی دوست ہے اور یہ میرے پاس لاہور آ کر اپنی دو دوستوں اور ایک مشترکہ بوائے فرینڈ کے ساتھ میرے گھر میں تین چار دن رہ کر جا چکی ہے۔۔۔ آپ اب کسی بھی وقت اس کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں۔۔۔۔

شام ہو ئی تو سب اچھی طرح تیار ہو چکے تھے۔۔۔ ثنا، ملیحہ ،فریحہ اور شمائلہ تو قیامت ڈھا رہی تھیں۔۔۔ کھانا آ کر باہر والے گیسٹ ہاؤس میں لگ چکا تھا۔۔۔ ابھی مہمانوں کی آمد و رفت شروع ہو گئی۔۔۔۔ وائٹ وائن اور ریڈ وائن نیز شیمپین اور دیگر کچھ برانڈ کی الکحل بھی سجائی جا چکی تھی۔۔۔ کوک اور جوسز بھی سجائے جا چکے تھے۔۔۔ آدھے گھنٹے کے اندر اندر سب دوست اور ان کی فیملیز آ گئیں ۔ سر نے میرا اور ثنا کا تعارف منگیتر کے طورپر کروایا اور کہا آج کے ہمارے چیف گیسٹ یہی نئی جوڑی ہےاور تعارف کے بعد کھانا شروع ہوا۔۔۔ ثنا تو سب کے ساتھ چہک رہی تھی۔۔۔ الکحل بھی پی رہی تھی سبھی الکحل پی رہے تھے لیکن میں نے ایک گھونٹ بھی نہیں لیا۔۔۔۔ فریحہ اور ملیحہ نے بھی ایک ایک پیگ چڑھایا۔۔۔ کھانا بے حد لذیذ تھا اور ویٹریسز بھی غضب ڈھا رہی تھیں۔۔۔آدھی ننگی ویٹرسز جب کسی کو کھانا ڈال کے دیتی تو ساتھ ایک کس ضرور کرتیں۔۔۔ میں حیران تھا کہ یہ سب کچھ ایک ایسے شہر میں ہو رہا تھا جسے میں اتنا ایڈوانس نہیں سمجھتا تھا۔۔۔ یہ میری بھول تھی۔۔۔ کھانا کھاتے کھاتے اور پیتے پلاتے کئی لڑکیاں کپڑوں کی قید سے آہستہ آہستہ آزاد ہو رہی تھیں۔۔۔ کھانے میں کچھ ایسی چیزیں شامل کی گئی تھیں جن کی وجہ سے سیکس کا جنون ہونے لگا تھا۔۔۔۔ میں کھانا کھاتے کھاتے ایسا محسوس کر رہا تھا کہ میرا لوڑا پھٹ جائے گا۔۔۔۔ میرے پاس سر کے دوست کی بیویاں اور بیٹیاں جھرمٹ بنا کر کھڑی کھانا کھا رہی تھیں۔۔ ایک لڑکی جس کی عمر کوئی پندرہ سال ہو گی اس نے ہمت کی اور میرے پاس آ کر میرے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیئے تو میں ایک طرف دیکھا کہ سر اور ثنا پہلے سے ہی مصرف تھے اور ثنا کے ممے نکال کر سر چوس رہے تھے۔۔۔ لائٹ مدھم ہو چکی تھی اور کھانا ڈھک دیا گیا تھا۔۔۔ الکحل کی بو پھیل چکی تھی اور آنکھوں میں خمار اور لال ڈورے تیرنے لگے تھے۔۔۔ قیمتی کپڑے بے کار ہو کر جگہ جگہ بکھر رہے تھے اور ویٹریسز بڑی تیزی سے انہیں سمیٹ کر الگ الگ کر کے سلیقے سے رکھتی جا رہی تھیں تا کہ کسی کے کپڑے بھی خراب نہ ہوں اور ایک انسان کے سارے کپڑے ایک جگہ پر اکٹھے مل جائیں۔۔۔ میں نے بھی اس پندرہ سالہ جوانی کو مزید تڑپنے سے بچا لیا اور اپنی آغوش میں لے لیا اتنے میں اس کی ماں اور ایک اور خاتون میری قریب آ گئیں اور مجھے بھی کپڑوں کی قید سے آزاد کر دیا۔۔۔ اب وہ دونوں میرے لوڑے پر پل پڑیں اور وہ لڑکی میے منہ میں منہ ڈالے میری زبان چاس رہی تھی اور ایک ویٹریس نے آکر اسے بھی کپڑوں سے مکمل آزاد کر دیا میں نے دیکھا کہ پیٹ پتلا اور کمر نہ ہونے کے برابر الیکن ممے 36 سائز کے اور گانڈ بھی پتلی تھی مجھے تو اس کو دیکھ کر ایسا لگا جیسے پلے بوائے کی کوئی ماڈل ہو۔۔۔ ویٹریس اس لڑکی کی پھدی چاٹ رہی تھی اور ساتھ کبھی میرے ٹٹوں پر بھی ہاتھ پھیر رہی تھی اس کے ہاتھ میں جادو تھا۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ لڑکی ڈسچارج ہوئی اور اس کی دھاریں تیزی سے نکلیں اور سارا فرش گیلا ہو گیا دسری ویٹریس آئی اور اس نے جگہ کو خشک کر دیا۔۔ مٰں تو انتظامات دیکھ کر ہی حیران ہو رہا تھا۔۔۔ اب لڑکی نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور میرے سامنے کتیا بن کر اپنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر کھڑی ہوئی جبکہ ویٹریس نے میرا لوڑا پکڑا اور کھینچ کر اس کی پھدی پر سیٹ کیا اور اس لڑکی والدہ نے مجھے پیچھے سے دھکا دیااور کہا کہ بہن چود ڈال اپنی بہن کی پھدی میں لوڑا میں نے کہ اچھا امی جان یہ لیں اور ایک ہی جھٹکے میں اپنا لوڑا ان کی بیٹی کی پھدیا میں گھسا دیا۔۔۔۔۔ ان کی بیٹی کی چیخ نکلی تو سبھی ہمارے ارد گرد جمع ہو گئے اورمجھے شاباش دینے لگے کہ آج تک کبھی عرفانہ کے منہ سے کسی نے چیخ نہیں نکلوائی تم پہلے انسان ہو جس کا لوڑا اندر جاتے ہیں عرفانہ کی چیخ نکلی ہے ۔۔۔ اس بات پر سب خواتین اور لڑکیوں نے باری باری میرے ہونٹوں پر کس کیااور پھر اپنے اپنے کپل کے ساتھ مصروف ہو گئے۔۔۔ دس منٹ کی چدائی کے بعد عرفانہ ڈسچارج ہ گئی اور اس بار پھر وہ بری طرح ڈسچارج ہوئی تھی۔۔۔ میرا لوڑا فورا اس کی والدہ نے اپنے منہ میں لے کو چوسنا شروع کر دیا اور پھر یک دم ویٹریس میرے سامنے کتیا بن گئی اور اس نے خود ہی میرا لوڑا اپنی گانڈ پر سیٹ کیا اور پیچھے کی طرف دھکیل کر سارا لوڑا ایک جھٹکے میں اپنی گانڈ میں جر تک اتار لیا۔۔۔۔ کوئی دو منٹ کی چدائی کے بعد عرفانہ کی والدہ نے ویٹریس کو ہٹا کر مجھے پکڑا اور سائڈ پر پڑے صوفے پر لے گئیں اور سیدھی لیٹ کر مجھے اوپر کھینچ لیا۔۔۔ میں نے ان کی چوت میں لوڑا گھسیڑ دیا اور ان کی کی بھی ہائے نکل گئی۔۔۔ مجھے اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ عرفانہ کی پھدی زیادہ ٹائٹ تھی یا اس کی والدہ کی۔۔

تھوڑی دیر عرفانہ کی ماں کی پھدی ماری اور پھر اس نے میرا لوڑا اپنی گانڈ میں گھسا لیا۔۔ ابھی یہ چدائی چل رہی تھی کہ ایک اور خاتون نے عرفانہ کی والدہ سے کہا کہ صغرٰی اب مجھے باری دو یہ تو بہت ٹائٹ ہے مجھے لگتا ہے کہ میں اس کا پانی نکال دوں گی۔۔۔ پھر وہ میرے لوڑے کی سواری کرنے لگی لیکن اس عورت کی پھدی اتنی ٹائٹ نہیں تھی لیکن گرم بہت تھی۔۔۔ میرے لیے مشکل ہو رہا تھا کہ اس کی پھدی میں لوڑا ڈال کر اپنے آپ کو ڈسچارج ہونے سے بچاؤں اس لیے میں نے بھی پینترا بدلنے کا سوچا۔۔ میں نے اسے کہا کہ میں تمہیں اوپر آ کر چودنا چاہتا ہوں۔۔ میں اوپر آ گیااور اس کی ٹانگیں اٹھا لیں اور ایک ہی جھٹکے میں اپنا شہزادہ اس کی گانڈ میں گھسیڑ دیا۔۔۔ اتنے میں ایک لڑکی جس کی عمر بہ مشکل 18 سال ہو گی آئی اور کہنے لگی کہ امی اب ان کی خدمت کا موقع مجھے دیں۔۔ تو جس کو میں چود رہا تھا اس نے کہا کہ بیٹی آج تک کسی مرد نے اتنا مزہ نہیں دیا جتنا یہ دے رہا ہے تم بھی لو مزہ یہ کہہ کر اس نے مجھے کہا کہ اب میری بیٹی کو چودو۔۔۔۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور اس لڑکی کے ہونٹ چوسنے شروع کیے اور اس نے میرے سامنے خود کو ایک کتیا بنا لیا میں ابھی اس کی پھدی پر لوڑا سیٹ کر رہا تھا کہ پیچھے سے فریحہ نے آ کر مجھے دھکا دیا کہ انکل اسے بہت شوق ہے آپ کا لوڑا ایک ہی جھٹکے میں اندر لینے کا اور اس غیرمتوقع جھٹکے سے میرا لوڑا اس لڑکی کی پھدیا میں پھدک گیا اور اس کی چیخ نکل گئی۔۔۔۔ کیونکہ اس کی پھدی اتنی گیلی نہیں تھی۔۔۔ اس لڑکی کی چیخ سن کر اس کے ابو نے آواز دی کہ شاباش سر آپ پہلے انسان ہیں جس نے میری بیٹی کی چیخ نکالی ہے۔۔۔ یہ سن کر میرا لوڑا اور زیادہ تن گیااور لگ رہا تھا جیسے پھدی کے اندر پھول رہا ہو۔۔۔ فریحہ نے مجھے کہا کہ انکل چلیں آپ کے گیسٹ روم میں اسے لے جا کر چودتے ہیں۔۔۔ میں نے اس لڑکی کو اٹھایا اور فریحہ بھی ساتھ چلتی چلتی گیسٹ روم میں چلی آئی۔۔۔ اب میں نے گیسٹ روم میں آتے ہیں اس کو بیڈ پر لٹایا اور زور زور سے اندر باہر کرنے لگا۔۔۔ فریحہ میرے طرف اپنی گانڈ اور چوت کر کے اس لڑکی کے اوپر لیٹ کر اسے کسنگ کرنے لگی۔۔۔ میں نے جب دیکھا کہ فریحہ کی گانڈ مجھے دعوت دے رہی ہے تو میں نے اچانک اپنا لوڑا اس لڑکی کی چوت سے نکالا اور فریحہ کی گانڈ میں گھسا دیا۔۔۔ دو تین گھسے مارنے کے بعد لوڑا نکال کر پھر اس لڑکی کی چوت میں ڈال دیا۔۔۔ فریحہ کہنے لگی کہ کیا اس کی گانڈ کو آپ اپنے لوڑے کا مزہ نہیں چکھائیں گے؟ میں نے جواب دینے کی بجائے اپنا لوڑا اس کی پھدی میں سے نکالا اور گیلا گیلا ہی اس کی گانڈ کی موری پر رکھا اور جیسے ہی اس نے محسوس کیا کہ لوڑا اس کی گانڈ میں گھسنے کے لیے تیار ہے تو اس نے جلدی سے ایک ہاتھ سے اپنا تھوک اور اس پر فریحہ سے کہا کہ اپنا تھوک لگاؤ فریحہ نے بھی اس کے ہاتھ پر تھک دیا اور اب دونو کا تھوک اس نے اپنی گانڈ کی موری پر لگایا اور میرا لوڑا اپنی موری پر سیٹ کر دیا۔۔۔ جیسے ہی اس نے سیٹ کیا میں نے یہ بھی انتظار نہیں کیا کہ وہ ہاتھ ہٹائے اور ایک جھٹکے کے ساتھ اس کی گانڈ میں اپنا لوڑا جڑ تک گھسیڑ دیا۔۔۔ اس کی ایک دلدوز چیخ نکلی اور میں نے اپنے لوڑے کا پسٹن اس کی گانڈ میں اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔۔۔ اس کی چیخ کی آواز سن کر فریحہ کے ابو اور ملیحہ اندر کی طرف بھاگے اور اس لڑکی کے ابو بھی آ گئے۔۔ اس لڑکی نے کہا کہ ابو آج اصل میں گانڈ پھاڑ مزہ آ رہا ہے چدوانے کا۔۔۔ اور فریحہ کے ابو کا شکرہ ادا کرتے ہوئے بولی کہ انکل آپ کا شکریہ جو ان کو انوائٹ کیا۔۔۔ اتنے میں فریحہ کو اس لڑکی کے ابو نے اٹھایااور ساتھ ہی لٹا کر اس کی گانڈ میں اپنا لوڑا گھسا دیا۔۔۔ اب ایک ہی بیڈ پر دو لڑکیوں کی گانڈ ماری جا رہی تھی اور تیسری لڑکی اپنے ابو کے ساتھ کھڑی یہ تماشا دیکھ رہی تھی۔۔۔ اتنے میں ملیحہ کہنے لگی کہ انکل آپ ذرا مجھ پر بھی توجہ دیں تو میں نے ملیحہ کو پکڑا اور اٹھا کر اس کے منہ میں اپنا منہ ڈال دیا اور اس کے ابو سے کہا کہ آپ تھوڑی دیر اس لڑکی کو سنبھالیں میں آپ کی بیٹی کو مزہ دے لوں۔۔۔ اب میں نے ملیحہ کی گانڈ میں اپنا لوڑا ڈلا دیا اور ملیحہ کے ابو نے اس لڑکی کی چوت مارنا شروع کر دی۔۔۔ اب ایک ہی بیڈ پر تین لڑکیوں میں دو کی گانڈ اور ایک کی پھدیا پر اجتماعی کام جاری ہو گیا۔۔۔ ملیحہ کی گانڈ مارتے مارتے اس کے ابو نے کہا کہ احمد آپ میرے پیچھے کھڑے ہو کر ذرا نائلہ (اس لڑکی کا نام مجھے اب پتہ چلا کہ نائلہ تھا۔) کی گانڈ میں اپنا لوڑا ڈال دو۔۔۔میں نے ملیحہ کی گانڈ سے اپنا لوڑا نکالا اور اس کے ابو کے پیچھے جا کر اچانک نائلہ کی گانڈ کی موری پر اپنا لوڑا سیٹ کیا اور ایک ہی جھٹکے سے اس کی گانڈ میں اپنا لن گھسیڑ دیا اس کی چوت میں سر کا لوڑا پہلے سے موجود ہونے کی وجہ سے اس کی گانڈ مزید ٹائٹ ہو گئی تھی اور میرا لوڑا اندر جانے کے لیے بہت زور مانگ رہا تھا اور نائلہ تھی کہ مزے سے چیخ رہی تھی کہ پھاڑ دو میری گانڈ اور چوت ۔۔۔ پھاڑ دو سب کچھ۔۔۔ آج کچھ بھی بچنا نہیں چاہیے۔۔۔ اس کی یہ چیخیں سن کر باہر والے سب اندر کو بھاگے اور سبھی نے یہ نظارہ دیکھا کہ جس طرح نائلہ کی چوت اور گانڈ میں دو لوڑے گھسے ہوئے ہیں اور ادھر نائلہ کے ابو فریحہ کی چوت مار رہے ہیں۔۔۔ ایک اور سر آگے ہوئے اور انہوں نے فریحہ کو کہا کہ بیٹی تم دوسرا لوڑا اپنی گانڈ میں لینے کے لیے تیار ہو؟ فریحہ نے کہا کہ نیکی اور پوچھ پوچھ۔۔۔۔۔ بس ابھی یہ بات ہو رہی تھی کہ فریحہ کی چیخیں گونجنے لگیں کیونکہ اب ایک لوڑا اس کی چوت میں مسلسل اندر باہر ہو رہا تھا اور دوسرا اس کی گانڈ میں گھس چکا تھا۔۔۔۔۔میں نے دیکھا کہ ملیحہ اور اس کے ساتھ کھڑی ثنا اب نائلہ کے بھائی کے ساتھ کسنگ کر رہی تھیں۔۔۔ ملیحہ کی چوت مارنے کی ابھی کسی کو اجازت نہیں تھی۔۔۔ دو سر ڈسچارج ہو چکے تھے اور ان کی بیٹیاں حیرت سے مجھے دیکھ رہی تھیں کیونکہ میں ابھی تک ڈسچارج نہیں ہوا تھا۔۔۔ مجھے ایک اور نوجوان لڑکی اچھی لگ رہی تھی۔۔ اس کا منہ کا دہانہ بالکل چھوٹا سا تھا۔۔ اور قد بھی چھوٹا سا تھا لیکن اس کے بوبز بہت پیارے اور سخت تھے۔۔۔ اس نے مجھے سمائل دی اور میں نے اسے اشارہ کر کے اپنے پاس بلایا اور اپنا لوڑا نائلہ کی گانڈ سے نکال کر اس کے منہ میں ڈال دیا۔۔۔ بڑی مشکل سے اس کے چھوٹے سے دہانے سے میرا لوڑا اس کے منہ میں گھس گیا۔۔۔۔ مجھے اس کی پھدی پر بڑے بڑے بال بہت پسند آئے تھے۔۔۔ اب میں اس لکیر کا فقیر بننے لگا تھا۔۔۔

جیسے ہی میں نے نائلہ کی گانڈ سے اپنا لوڑا نکال کر اس کی چھوٹی بہن فرخندہ کے منہ میں ڈالا، تو اس نے میرے ٹٹے اپنے چھوٹے سے ہاتھ میں پکڑے اور بڑے زبردست انداز میں انہیں سہلانے لگی۔۔ یہ مزہ اس سے پہلے مجھے کبھی نہیں آیا تھا اور میں نے سمجھ لیا کہ یہ لڑکی مزہ دینے کی ایکسپرٹ ہے۔۔ وہ نائلہ کی چھوٹی بہن تھی لیکن بہت زبردست۔۔۔ اس نے میرا لوڑااپنے منہ ڈالے ڈالے میری طرف دیکھا اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سا درد اور گہرائی تھی۔۔۔ جیسے کوئی بہت گہری اور الم ناک داستان اس کی سرمئی آنکھوں میں چھپی ہوئی ہو۔۔۔ لیکن اس وقت وہ داستان سننے کہنے کا وقت نہیں تھا اس لیے میں نے اسے اٹھایا اور اس کے منہ میں منہ ڈال کر اس کو گود میں بٹھایا اور ایک ہی جھٹکے میں اس کی بالوں والی پھدیا کے درمیان لکیر تلاش کر کے اپنا فقیر اس کے اندر گھسیڑ دیا۔۔۔۔ میرا لوڑا اسی کے تھوک میں لتھڑا ہوا تھا اور اب اس کی پھدیا کے اندر گھس چکا تھا۔۔۔۔ اس لڑکی کی سسکاری نکل گئی اور اتنے میں اس کی والدہ میرے قریب آ گئیں اور کہنے لگیں کہ احمد! آج اس کا سارا دکھ اور غم دور کر دو پلیز۔۔۔ میں نے کہا کہ کیوں نہیں میں ہر وقت حاضر ہوں۔۔۔ وہ لڑکی میرے کان کے پاس منہ لے جا کر کہنے لگی کہ میں آپ کے گھر جانا اور آپ کے ساتھ دو تین دن گزارنا چاہتی ہوں۔۔۔ کب لے جائیں گے؟۔۔۔ میں نے کہا کہ بے شک کل ہی چلو۔۔۔ وہ خوش ہو گئی اور کہنے لگی کہ بالکل ٹھیک ہے لیکن اور کوئی نہیں ہو گا ساتھ میں اور آپ ہوں گے۔۔۔ میں نے کہا کہ بالکل ٹھیک ہے ہم صبح چلیں گے وعدہ رہا۔۔۔ پھر وہ لڑکی میری گود سے نکلی اور یہ کہہ کر کہ میں جا رہی ہوں اور کل آپ کے ساتھ آپ کے گھر جاؤں گی اور آپ کے ساتھ اکیلے میں دو تین دن گزاروں گی۔۔۔ گیسٹ روم سے باہر نکل گئی۔۔۔ میں بہت حیران تھا۔۔۔۔ لیکن ابھی اس پر سوچنے کا وقت مجھے یہ سب لوگ کہاں دینے والے تھے۔۔۔ میں نے دیکھا کہ میرا لوڑا ایک سیکنڈ کے لیے بھی خالی نہیں رہا۔۔۔۔ ثنا اور عرفانہ کی والدہ میرے لوڑے کو چاٹ رہی تھیں۔۔۔ ثنا میرے لوڑ ے کو اپنی گانڈ کی موری پر سیٹ کر چکی تھی اور آنٹی ثنا کے ساتھ کسنگ کر رہی تھیں۔۔۔اب میرا لوڑا ثنا کی گانڈ کی سیر کر رہا تھا۔۔۔۔ کوئی ایک گھنٹہ مزید یہ سیشن چلا اور اس کے بعد سر نے کہا کہ لو بھئی میں تو چلا سونے۔۔۔۔ سب مرد اور لڑکے ڈسچارج ہو چکے تھے۔۔۔ جیسے ہی فریحہ کے ابو نے یہ کہا سبھی نے اسی وقت چدائی چھوڑ دی اور گیسٹ روم سے نکل گئے۔۔۔ ثنا میرے ساتھ موجود رہی۔۔۔ سر مجھے اور ثنا کو کہہ گئے تھے کہ آپ دونوں اگر آنا چاہو تو آ جاؤ ورنہ یہیں رہ سکتے ہو۔۔۔ میں نے ثنا سے کہا کہ رات ہمارے ہی ہے اس لیے بہتر ہو گا کہ سب کو سی آف کر دیں۔۔۔ ثنا نے میری بات مانی اور ہم دونوں کھانے والے روم میں جا کر اپنے کپڑے پہننے لگے جہاں اکثر لوگ اپنے اپنے کپڑے پہن چکے تھے اور ویٹریسز سب کو ان کے کپڑوں کے تعلق میں ہیلپ کر رہی تھیں۔۔۔ سب نے اپنے اپنے کپڑے پہنے اور سب نے باری باری سر اور میرا شکریہ ادا کیا ۔۔ فرخندہ میرے پاس آئی اور اس کی آنکھوں کی اداسی برداشت سے باہر تھی۔۔۔میں نے اسے کہا کہ تم رات میرے پاس ہی ٹھہر جاؤ اور صبح یہیں سے لاہور چلے جائین گے۔۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی اور اس نے ثنا کی طرف دیکھا۔۔۔ ثنا معاملہ کو سمجھ گئی اور اس نے فرخندہ کو سینے سے لگا کر کہا کہ تم فکر نہ کرو میں ان کے ساتھ رات نہیں رکنے والی مجھے اب یہ ڈراپ کر دیں گے اور تم آرام سے ان کے ساتھ رہ سکتی ہو اور میں ان کی صرف دوست ہوں منگیتر نہیں ہوں۔۔ فرخندہ خو ش ہو گئی اور کہنے لگی کہ ٹھیک ہے ہم دونوں جائیں گے تمہیں ڈراپ کر کے واپس آ جائیں گے۔۔۔ اتنے میں ویٹریس سب کو ایک خاص مشروب سرو کر رہی تھیں مجھے بھی پیش کیا گیا اور اب میں نے یہ پوچھنا مناسب نہ سمجھا کہ اس میں الکحل ہے یا نہیں اور اس کا ایک گھونٹ لیا۔۔۔ فرخندہ میرے بازو میں بازو ڈالے کھڑی تھی جیسے میری دلہن ہو۔۔ میں حیران تھا کہ اس لڑکی نے میرے بعد کسی سے سیکس نہیں کیا تھا۔۔۔۔ مشروب بہت مزے کا تھا اور سمجھ سے بالا تھا کہ کس چیز کا ہے۔۔ مشروب پینے کے بعد میں نے ایک اور گلاس مانگا تو ویٹریس نے لا دیا اور کہا کہ اس کے تین گلاس ایک وقت میں آپ پی سکتے ہیں اس سے زیادہ نہیں ۔۔ یہ آپ کو ممکنہ کمزوری سے بچاتا ہے اور یہ تھائی لینڈ اور ملائشیا سے منگوائی گئی جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ ہے جو آپ کے لیے ایک ماہ تک کافی ہو گا۔۔۔ میں نے اسے کہا کہ ایک گلاس میرے کمرے میں رکھ دو اور ایک فرخندہ کے لیے بھی ۔۔۔ سب نے رخصت لی۔۔۔ فرخندہ کی فیملی کچھ بات کیے بغیر فرخندہ سے ملے۔۔۔ اور رخصت ہوئے۔۔۔ سب نے ایک دوسرے کا شکریہ ادا کیا۔۔ میں فرخندہ اور ثنا کو لے کر باہر نکلا اور ثنا کو ڈراپ کرنے کے لیے ہوسٹل کی راہ لی۔۔۔ ثنا اور فرخندہ پچلی سیٹ پر بیٹھی تھیں۔۔ ثنا نے فرخندہ سے کہا کہ تم آج سے میری بہن ہو اور جب بھی میری ضرورت ہو میں حاضر ہوں۔۔۔ دونوں کے درمیان اچھی دوستی ہو چکی تھی۔۔۔ فرخندہ کی آنکھوں سے اداسی کے بادل چھٹ رہے تھے۔۔۔ رستے میں میں نے کہا کہ آئس کریم کھانی ہے؟ تو فرخندہ کہنے لگی کہ نہیں یہ مشروب پینے کے 6 گھنٹے تک کچھ کھانا پینا نہیں ہوتا ورنہ اس سے خطرناک الرجی ہو سکتی ہے۔۔۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔۔ پھر ہم نے ثنا کو ڈراپ کیا اور واپس گھر آگئے۔۔۔ سب لوگ سو چکے تھے کیونکہ سبھی بہت تھکے ہوئے تھے۔۔۔ میں فرخندہ کو لے کر اپنے روم میں آ گیا۔

کمرے میں آتے ہی فرخندہ مجھ سے لپٹ کر رونے لگی میں اور بھی پریشان ہو گیا۔۔ فرخندہ مجھ سے لپٹے لپٹے مجھے بیڈ کی طرف لے گئی اور بیڈ پر لیٹنے کو کہا۔۔ میں اس کے ساتھ بیڈ پر لیٹ گیا اور وہ مجھ سے لپٹ کر آنکھیں بند کر کے گہری سانسیں لینے لگی۔ مجھے اس کی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا چاہتی ہے؟ خیر میں نے خود کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔۔۔ وہ مجھ سے لپٹ کر کسنگ بھی نہیں کر رہی تھی نہ کچھ اور بس خود کو میرے اندر سمیٹ رہی تھی۔ میں بھی اسے کچھ نہیں کر رہا تھا بس اپنے ساتھ لپٹا کر اس کے کالے سیاہ لمبے گھنے بالوں میں ہاتھ پھیر رہا تھا اور کچھ ہی دیر میں وہ گہری نیند کی آغوش میں چلی گئی۔۔۔ میں کچھ بھی نہیں سمجھ پایا لیکن میں نے فرخندہ کی نیند خراب نہ کرنے کا سوچا اور اپنی آںکھیں بند کر لیں۔۔۔ مجھے بھی اندازہ نہیں ہوا کہ کب میں نیند کی آغوش میں چلا گیا۔۔۔ صبح جب میں جاگا تو فرخندہ ایک معصوم سی پری کی صورت میرے ساتھ لپٹی بے خبر سو رہی تھی۔۔۔ میں نے اسے جگانا مناسب نہ سمجھا اس لیے اس کے ساتھ چمٹ کر اس کی بھولی اور معصوم صورت دیکھتا رہا۔۔۔ اس کا چہرہ بے حد معصوم تھا۔۔۔ اگر اس کو سیکس کی پیاس تھی تو اس نے رات کو میرے ساتھ سیکس کیوں نہ کیا؟ اس نے تو مجھ سے کسنگ بھی نہیں کی تھی۔۔۔ اس نے کپڑے تک نہ اتارے تھے۔۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ سیکس کی بھوکی نہیں اسے پیار چاہیے۔۔ مجھے اس پر بے حد پیار آ رہا تھا۔۔ رات کو بھی پارٹٰ میں اس نے عین سیکس کرتے ہوئے خود کو سب سے الگ کر لیا تھا اور پھر اس کے بعد کسی کے ساتھ سیکس نہیں کیا تھا۔۔۔ میں اس پر حیران تو تھا ہی مطمئن بھی تھا کہ اسے ساتھ لے جاؤں گا اور دو تین دن میں وہ خود ہی اپنی پرابلم مجھ سے شیئر کرے گی۔۔۔ ابھی میں یہ سب کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ فرخندہ کی لمبی پلکیں ہلیں اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔۔ مجھے جاگتے دیکھ کر مسکرائی اور میرے گال پر ایک بوسہ دیتے ہوئے بولی کہ ٹھینکیو ویری مچ! آپ کو پتہ ہے کہ آج کتنے عرصے بعد میں اس طرح سکون کی نیند سوئی ہوں ورنہ ہمیشہ درندے مجھے ساری ساری رات نوچتے رہتے ہیں جن میں میرا باپ اور بھائی بھی شامل ہیں۔۔۔ میں نے اسے کہا کہ فرخندہ! میرے دل میں تمہاری عزت پیدا ہو چکی ہے اور میں جان گیا ہوں کہ تم واقعی معصوم ہو اور میری یہ عادت ہے کہ کوئی لڑکی جب تک میرے ساتھ چدائی کا کھیل نہ کھیلنا چاہے میں اسے تنگ نہیں کرتا بے شک وہ میرے ساتھ سو ہی کیوں نہ رہی ہو۔۔۔ میں تو رات بھر کروٹ بھی نہیں بدلی مبادا تمہاری نیند خراب ہو جائے۔ میری پیاری تمہارا شکریہ کہ تم اس دنیا میں رہتی ہو لیکن اس دنیا کی نہیں ہو۔۔۔ تم بہت اچھی ہو معصوم ہو۔۔۔ اب اگر مزید آرام کرنا ہے تو کر لو اور اگر چلنا چاہتی ہو تیار ہو جاؤ ہم نکلتے ہیں کیونکہ میں تمہیں وہاں لے جانا چاہتا ہوں جہاں صرف میں اور تم ہوں تا کہ تم سکن کی نیند سو سکو اور میں تمہاری نیند کی حفاظت کر سکوں۔۔۔۔ فرخندہ کہنے لگی کہ ابھی نہیں۔۔۔ ابھی مجھے اپنے ساتھ چمٹائے رکھیے کیونکہ کل میں نے آپ کو دیکھتے ہی سمجھ لیا تھا کہ آپ بھی کسی اور دنیا سے ہیں لیکن اس دنیا میں پھنس گئے ہیں اسی لیے میں اداس ہو گئی تھی کہ آپ کیوں اس دنیا میں آ گئے ہیں لیکن مجھے کوئی اعتراض نہیں اگر آپ ایسی پارٹیوں میں شامل ہونا چاہیں۔۔۔ میں نے کہا کہ اس موضوع کو چھوڑ دو اور بس اپنی بات کرو۔۔۔ تقریباً گھنٹہ بھر لیٹنے کے باوجود اس نے مجھے سوائے ایک بار گال پر بوسہ دینے کے کچھ نہیں کیا بس میرے ساتھ چمٹی رہی۔۔۔ پھر کہنے لگی چلیں؟

ہم تیاری کر کے باہر نکلے۔۔ باہر شمائلہ اکیلی تھی کیونکہ بچے سکول اور سر یونیورسٹی جا چکے تھے۔۔۔ شمائلہ ہم دونوں کو گلے لگ کر ملی اور فرخندہ سے بہت پیار کیا۔۔ فرخندہ نے بھی اس کی بہت عزت کی اور پیار کیا۔۔ شمائلہ نے مسکرا کر مجھے بھی گلے لگایا اور کہنے لگی کہ بھائی! ہماری فرخندہ بیٹی کا آپ بہت اچھے سے خیال رکھ سکتے ہیں اس لیے کسی کو بھی آپ کے ساتھ بھیجنے پر اعتراض نہیں ہے۔۔۔ میں نے سوچا کہ میں نے تمہاری بئٹی فریحہ کا بھی خیال رکھا تھا اور اس کی سیل توڑی تھی جس کا تم لوگوں کو علم بھی نہیں ہے۔۔۔۔ میں بولا کہ بے شک شمائلہ بہن! جب ہم واپس آئیں گے تو فرخندہ کی سب اداسی دور ہو چکی ہو گی اور آپ فکر نہ کریں۔۔

ہم نکلے تو معصوم سی فرخندہ گو اپنی سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی لیکن وہ میرے ساتھ چمٹی ہوئی تھی۔۔ میں نے شمائلہ سے کہہ کر اس کے لیے جوس اور اپنے لیے کافی بنوا لی اور یوں ہم عازمِ سفر ہوئے۔۔ لاہور کے قریب پہنچ کر میں نے فرخندہ سے پوچھا کہ کھانا کیا کھاؤ گی؟ وہ کہنے لگی کہ میں خود کھانا تیار کروں گی۔ گھر میں کیا کیا ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ ہر قسم کا گوشت اور دو تین قسم کی سبزی ہر وقت گھر میں موجود ہوتی ہیں اور پھر فون کر کے اپنے خانساماں سے پوچھا کہ کون کون سی سبزی اس وقت گھر میں موجود ہے؟ اس نے بتایا کہ بھنڈی۔ آلو۔۔ شملہ۔۔ گوبھی۔۔ مٹر اور گاجریں موجود ہیں۔۔۔ فرخندہ نے مجھے اشارہ کیا کہ بس ٹھیک ہے اور پوچنے لگی کہ قیمہ ہو گا؟ تو میں بولا ہاں قیمہ تینوں قسم کا ہر وقت گھر میں موجود ہوتا ہے اور کباب بھی۔ میں نے خانساماں سے کہا کہ تم کچھ نہ پکانا اور اگلے تین دن کے لیے تمہیں آنے کی ضرورت بھی نہیں اور فون بند کر دیا۔۔۔۔تھوڑی دیر میں ہم گھر پہنچ گئے اور پورچ میں کار کھڑی کر کے ہم اوپر چلے گئے۔۔۔ گھر خوشبو سے مہکا ہوا اور سلیقے سے سجا ہوا تھا کیونکہ میں موجود ہوں یا نہ ہوں صفائی روزانہ کی جاتی تھی۔۔۔ فرخندہ نے آنکھیں بند کر میرے سینے پر سر رکھ دیا اور ہم کافی دیر اسی طرح کھڑے رہے۔۔۔ فرخندہ گہرے اور اطمنان بخش سانس لے رہی تھی اور مجھے عجیب سا سکون مل رہا تھا۔۔۔ گھر داخل ہوتے ہیں میں نے کہا کہ میں تو سب سے پہلے گرم باتھ لوں گا تا کہ تھکاوٹ اترے اور پھر ہم مارکیٹ جائیں گے تمہارے لیے شاپنگ کریں گے۔۔۔ وہ کہنے لگی کہ اسے کوئی چیز نہیں چاہیے۔۔ میں نے کہا کہ نہیں مجھے تمہارے لیے کچھ خاص چیزیں لینی ہیں اور یہ سرپرائز ہے۔۔۔ وہ کہنے لگی کہ جو آپ کی خوشی۔۔۔ میں نے کہا کہ پھر جلدی سے اپنے بیگ میں سے کوئی تازہ کپڑے نکالو اور نہا کر فریش ہو جاؤ تا کہ ہم مارکیٹ جا سکیں۔۔۔ ہم دونوں باتھ ٹب میں گھس گئے جہاں ہم نے ایک دوسرے کو مل مل کر نہلایا لیکن نہانے کے دوران بھی اس نے میرے ساتھ کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کی جس سے مجھے بہت حیرت ہوئی اور اس سے زیادہ حیرت مجھے اس بات پر ہوئی کہ میرا لوڑا بڑے آرام سے بیٹھا رہا اور اس میں کوئی ہلچل نہیں ہوئی۔۔ جس سے میں سمجھ گیا کہ پیار والی زندگی کتنی پرسکون ہوتی جبکہ سیکس والی زندگی انتہائی بے سکونی والی ہوتی ہے۔۔۔کوئی ایک گھنٹے کے بعد ہم تیار ہو کر کار میں بیٹھے مارکیٹ جا رہے تھے۔۔۔ مارکیٹ سے میں نے اس کے لیے سرخ رنگ کا ایک قیمتی دلہن والا لباس خریدا۔۔۔ دو تین نارمل سوٹ لیے ایک نائیٹی لی۔۔۔ دو جوتے لیے۔۔ جوتوں سے میچنگ دو ہینڈ بیگ اور پھر ہم جیولری کی دکان پر گئے وہاں سے اس کے لیے انگوٹھی۔۔ ہار اور ٹاپس لیے۔۔۔ اس نے مجھے کچھ نہیں پوچھا نہ کوئی بات کی بس چپ چاپ مسکراتی رہی اور میری طرف دیکھتی رہی۔۔۔ ہم جس دکان پر جاتے دکان دار کہتے کہ یہ خریدیں اور یہ خریدیں۔۔ جیولر کے پاس گئے تو وہ ایک بہت ہی بزرگ انسان تھے ۔۔ جبہم نے شاپنگ مکمل کی تو انہوں نے فرخندہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ بیٹی جاؤ اللہ تمہیں سکھ نصیب کرے اور ایک ڈبہ دے کر کہا کہ یہ میری طرف سے تمہارے لیے تحفہ ہے۔۔ وہ تحفہ دیتے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔۔۔ فرخندہ بے ساختہ رونے لگی اور اس بزرگ کے ساتھ لپٹ گئی۔۔۔ مجھ پر آج حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے۔۔۔ میں دل میں بہت خوش ہو رہا تھا جیسے مجھے قارون کا خزانہ مل گیا ہو۔۔۔۔میں اپنی خوش نصیبی پر فخر کر رہا تھا کہ مجھے فرخندہ جیسے لڑکی مل گئی ہے۔۔۔ اور اب میں اپنے کیے ہوئے فیصلہ پر سو فیصد مطمئن تھا جس کا سرپرائز میں ابھی فرخندہ اور اس کی فیملی کو دینے جا رہا تھا۔۔

ہم گھر واپس آ گئے اور میں اپنے دل میں بہت مطمئن تھا کہ میرا فیصلہ درست ہے۔۔ میں نے فرخندہ سے کہا کہ تم کیا سوچ رہی ہو؟ کہنے لگی کہ جو آپ سوچ رہے ہیں۔۔۔ میں پوچھا کہ میں کیا سوچ رہا ہوں؟۔۔ بولی یہی کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے بنے ہیں اور میری جستجو کے سفر کی منزل آپ ہیں۔۔۔ اور آپ مجھ سے مطمئن ہیں۔۔ میں نے کہا تو دیر کیوں کریں؟ ۔۔ بولی کہ میں آپ کی ہوں۔۔۔ میں نے کہا کہ نہیں ایسے نہیں۔۔۔ میں نے وہیں سیڑھیوں میں اپنے کوٹ کی جیب سے انگوٹھی نکالی اور اس نے اپنا ہاتھ آگے کر دیا ۔۔۔ انگوٹھی اس کی انگلی میں تھی اور میرے ہونٹ اس کے ہاتھ کا بوسہ لے چکے تھے۔۔۔ کسی کو کچھ کہنا نہیں پڑا تھا۔۔۔ میری آنکھوں سے بے ساختہ آنسو نکل کر اس کے ہاتھ پر پڑے۔۔۔ اس کا ہاتھ کپکپایا ۔۔ وہ نیچے بیٹھی اور میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر کہنے لگی کہ احمد! آئی لو یو! آپ ہی میرے مجازی خدا ہو! میں نے کہا کہ تیار ہو جاؤ! اس نے دلہن والا لباس پہنا۔۔۔ اتنی دیر میں میں نے کچھ دوستوں اور قاضی صاحب کو بلوا لیا۔۔۔ ہمارا نکاح انتہائی سادگی سے ہو گیا تھا اور فون پر فرخندہ کے والد نے ایجاب و قبول قاضی صاحب کے ساتھ کر لیا۔۔۔ آج اچانک ہماری سہاگ رات تھی۔۔۔ خواب ناک تھی۔۔۔ دوستوں کی ضیافت کا انتظام کیا گیا ۔۔ میرے سارے ملازم آج گھر میرے گھر تھے اور سب کی خدمت کر رہے تھے۔۔۔ سب کچھ بدل چکا تھا۔۔۔ فرخندہ جیسی معصوم لڑکی میری دلہن بن چکی تھی۔۔۔ میں نے شادی کر لی اور ایسی اچانک کہ مجھے خود پتہ نہیں چلا۔۔۔ میں فرخندہ کے حصار میں تھا یا وہ میرے حصار میں تھی۔۔۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا۔۔۔ رات دس بجے تک گھر میں چہل پہل رہی۔۔۔ دوست رخصت ہو چکے تھے۔۔۔ تحائف پڑے ہوئے تھے۔۔۔ ملازمین گھر کی صفائی میں مصروف تھے۔۔۔ فرخندہ سے میں نے کہا کہ ہر ملازم کو پانچ پانچ ہزار روپے اپنے ہاتھ سے دے دو۔۔ جب سب کام مکمل ہو چکے تو چاروں ملازمین کو پانچ پانچ ہزار دے کر بڑی عزت سے رخصت کیا اور کہا کہ کل آپ کی رخصت ہے اس لیے اب پرسوں آ ئیں اور گھر کی صفائی وغیرہ کریں۔۔۔

میں جب اپنے بیڈ روم میں آیا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ میرے دوستوں اور ملازمین نے مل کر بہت ہی خوب ناک قسم کی مسہری سجائی ہوئی تھی۔۔ فرخندہ تو مسہری پر بیٹھی کسی ملکہ سے کم نہیں لگ رہی تھی اور میں خود کو نہایت خوش قسمت سمجھ رہا تھا۔۔۔ ہم دونوں مسہر پر بیٹھ چکے تھے۔۔۔ گہری خاموشی تھی۔۔۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ کیا میں آپ کا پاکیزہ، خوب صورت معصوم چہرہ اور چھوٹا دہانہ دیکھ سکتا ہوں؟ میری بیوی شرما کر کہنے لگی کہ اب تو سب کچھ آپ کا ہی ہے۔۔ میں نے کہا مجھے اس پر فخر ہے کہ میں نے یہ فیصلہ کل رات ہی کر لیا تھا کہ اور آج رات آپ میری زوج ہیں۔۔۔ وہ بولی لیکن میں کبھی آپ کو کسی اور کے ساتھ تعلق بنانے سے نہیں روکوں گی لیکن کبھی میں کسی کو اجازت نہیں دوں گی کوئی مجھے ہاتھ لگائے۔۔۔ میں نے کہا کہ جیسے آپ کی مرضی۔۔ لیکن یہ باتیں ابھی ہمارے کرنے کی نہیں ہیں۔۔۔ ابھی ہماری سہاگ رات ہے اور جیسے آپ منانا چاہیں گی ہم منائیں گے اور ہم ایک دوسرے سے کوئی وعدہ نہیں لیں نہ ایک دوسرے سے کوئی وعدہ کریں گے سوائے اس کے کہ ہم زندگی کے آخری سانس تک اکٹھے رہیں گے۔۔۔

وہ بولی۔۔۔۔ بالکل ٹھیک آپ اپنی زندگی میں بالکل آزاد رہیں گے۔۔۔ میرے لیے آپ دیوتا ہیں اور بس آپ ہی میری زندگی کے مالک رہیں گے۔۔۔ اس دھان پان سی لڑکی نے جو بہ مشکل اٹھارہ سال کی تھی میری زندگی کی نہج کو 360 ڈگری پر بدل کر رکھ دیا تھا۔۔۔۔۔

میں اس کی محبت کے سمندر میں ڈوبتا چلا جا رہا تھا۔۔۔ اور مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کل تک ایک پارٹی کی زینت آج میرے گھر کی مالکن بن گئی ہے اور ایسی بے نیازی ہے اس میں کہ اسے دنیا کی کئی چیز نہیں چاہیے صرف میں۔۔۔ اور مجھ پر کوئی قدغن بھی نہیں لگا رہی ۔۔ حیرت انگیز لڑکی ہے یہ۔۔۔ میں اسے ہاتھ لگاتے بھی ڈر رہا تھا جیسے کوئی دیوی ہے۔۔۔ مجھے اس پر بہت پیار آ رہا تھااور اب مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ آج جب میں اس کے ساتھ بستر پر جاؤں گا تو میں کچھ بھی نہیں کر پاؤں گا۔۔۔۔

میں ابا اماں اور اپنی بہن کو یاد کر رہا تھا جو مجھے اکیلا چھوڑ گئے تھے۔۔۔۔ آج وہ زندہ ہوتے تو بے حد خوش ہوتے اور بہت مزہ آتا لیکن کوئی بات نہیں ان کی روحیں دیکھ رہی ہوں گی اور خوش ہو رہی ہوں گی۔۔۔

وہ رات میرے لیے ایک عجیب رات تھی۔۔۔ مسحور کن۔۔۔ مجھے معلوم ہوا کہ محبت کیا ہے اور دیوانگی کسے کہتے ہیں۔۔۔ وہ محبت کی بے لوث دیوی تھی جو میرے پہلو میں بیٹھی تھی۔۔۔۔ میری فرخندہ۔۔۔ وہ لڑکی جسے میں نے کبھی سوچا نہ تھا نہ کبھی دیکھا تھا اچانک میری زندگی میں آئی اور مجھے اپنا بنا لیا۔۔۔ اس میں ہوس نہیں ۔۔۔ لالچ نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔۔۔ اسے صرف چاہنے اور چاہے جانے کی آرزو تھی اور مجھے دیکھ کر اسے لگا تھا کہ میں ہی وہ شخص ہوں جو اسے یہ سب کچھ دے سکتا ہے۔۔ وہ مجھے نہیں جانتی تھی لیکن اس کی چھٹی حس اور وجدانی قوت نے بالکل ٹھیک بتایا تھا۔۔۔۔

میں نے روزانہ کئی کئی لڑکیوں کی پھدی اور گانڈ ماری تھی لیکن آج میرے لیے فرخندہ کو چھونا بھی ایک بھاری مسئلہ بنا ہوا تھا۔۔۔ میں اسے کہنے سے ڈر رہا تھا کہ کیا میں تمہیں چوم لوں؟ میں اسے چومنے سے ڈر رہا تھا۔۔۔ میں نے سوچا کہ معصوم لڑکی کو چھونا اور چومنا کتنا مشکل ہے؟ حالانکہ کل رات میرا لوڑا اس کے چھوٹے سے دہن میں گھسا بھی تھا اور میں اس کی پھدیا کو بھی چود چکا تھا۔۔۔ پھر بھی مجھے آج ایسا لگ رہا تھا کہ یہ سب مجھ سے نہیں ہو گا۔۔۔۔

اچانک میرے گال پر نازک سا ہاتھ آیا۔۔۔ میری پسندیدہ خوش بو میں بسا ہوا ہاتھ۔۔۔ اور پھر میرے پسندیدہ باریک ہونٹ اور چھوٹا سا دہن میرے ہونتوں اور منہ پر آن لگا جیسے بادبانی کشتی کنارے پر لگ جاتی ہے۔۔۔ پھر مجھے ہوش نہ رہا۔۔۔ کب ہمارے کپڑے اُترے۔۔۔ کب ہم نے ایک دوسرے کے بدن پر پیار کی مہریں ثبت کیں اور کب ہم ایک دوسرے کے اندر اتر گئے ہمیں معلوم ہی نہ ہو سکا۔۔۔ آج کا احساس پطھلے سب احساسات سے الگ اور مسحور کن تھا۔۔۔ وہی پھدیا تھی جس میں میں نے کل لوڑا ڈالا تھا لیکن آج اس کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔۔۔ وہ پھدیا کل انجان لگ رہی تھی لیکن آج میرے موٹے اور لمبے لوڑے کی جان بن گئی تھی۔۔۔ ہم ساری رات لگے رہے۔۔۔ رات کے تیسرے پہر فرخندہ کہنے لگی کہ بس اب میرے ساتھ آئیں۔۔ میں حیران تھا۔۔۔ اس کے ساتھ چل پڑا۔۔۔ وہ مجھے باتھ ٹب میں لے گئی۔۔۔ مجھے نہلایا صاف کیا۔۔۔ خود کو نہلایا صاف کیا۔۔۔ وضو کروایا اورخود بھی وضو کیا اور میرا ہاتھ تھامے باہر نکلی۔۔۔ ہم نے کپڑے پہنے۔۔۔ وہ سفید لباس میں ملبوس جنت کی حور لگ رہی تھی۔۔۔ جائے نماز والے کمرے میں لے گئی اور ہم نے نوافل ادا کئے۔۔۔ وہ سجدے میں رو رہی تھی۔۔۔ میں بھی حیران و ششدر رو رہا تھا۔۔

میں ابھی بیڈ میں تھا کہ میری حور نے ناشتہ تیار کیا۔۔۔ مجھے بڑے پیار سے جگایا۔۔۔ وہ مجھ سے ہمیشہ فاصلہ رکھتی۔۔۔ وہ بلا وجہ کس نہیں کرتی تھی۔۔ بس جب وہ میرے پہلو سے چمٹتی تو جھے معلوم ہو جاتا کہ اسے مجھ پہ پیار آ رہا ہے۔۔ وہ مختلف تھی۔۔۔ وہ عام لڑکی نہ تھی۔۔۔ میں بے حد خوش قسمت تھا۔۔۔ میری زندگی نے ایک نئی کروٹ لی تھی۔۔۔ تین دن ایک خواب کی طرح گزر گئے۔۔۔ اس میں نہ تو نخرہ تھا نہ ہی وہ نخرہ کو پسند کرتی تھی۔۔ وہ بہت سادہ تھی۔۔۔ اس نے میرے ٹھاٹھ باٹھ پر کسی حیرت کا اظہار نہ کیا تھا۔۔۔ اس نے ابھی تک کوئی الماری کھول کر نہ دیکھی تھی کیونکہ اس میں تجسس نہیں تھا۔۔۔ میری جو چیز جہاں پڑی تھی اس کو سلیقے سے اس نے رکھ تو دیا تھا لیکن کھول کر نہٰں دیکھا تھا۔۔۔ کچھ خطوط میل باکس میں آئے تھے وہ بڑۓ سلیقے سے لیٹر بکٹ میں ڈال کر میری سائڈ ٹیبل پر پڑے تھے اور اس نے صرف اتنا کہا تھا کہ دیکھ لیں کوئی ضروری ڈاک نہ ہو۔۔۔ میں حیران تھا۔۔۔ وہ آئی اور چھا گئی۔۔وہ حور تھی۔۔۔ وہ کیا تھی۔۔۔ اسے خود پر کتنا کنٹرول تھا۔۔۔ اتنا کہ میں بھی اب اس کے کنٹرول میں تھا۔۔۔ اس کی آنکھوں کی اداسی ختم ہو چی تھی۔۔۔ اس کے لہجے میں اطمنان اور اعتماد بھر گیا تھا۔۔۔ اس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی۔۔۔ ہم اکٹھے بیٹھ کر چائے پی رہے تھے۔۔۔ مجھے خیال بھی نہ آیا کہ میں تو کافی پیا کرتا تھا چائے میں نے زندگی میں کبھی نہیں پی۔۔۔ لیکن آج والی چائے کتنی مزے کی تھی۔۔۔ وہ بولی اوہو احمد! سوری۔۔ میں بولا کیوں؟۔۔۔ کہنے لگی آپ تو کافی پیتے ہیں نا؟۔۔۔ میں بولا کہ آج امرت پی رہا ہوں۔۔۔۔ ہنس کر بولی: میں کافی لاتی ہوں۔۔۔ میں نے کہا کہ نہیں جو تم پیو گی وہی میں پیوں گا جو تم پلاؤ گی وہی میں پیوں گا۔۔۔ کہنے لگی کہ آج میں آپ کی پسند کا کھان بناؤں؟ میں نے کہا وہ کیا؟ بولی: بھنڈی اور قیمہ۔۔۔۔۔ میں نے کہا کہ تمہیں کس نے بتایا؟۔۔۔۔ کہنے لگی کہ میرے دل نے۔۔۔۔ میں نے کہا کتنا سچا اور صاف دل ہے تمہارا کہ میرے دل کو پڑھ لیا۔۔۔۔ کہتی کہ اپنے وعدے پورے کرنا۔۔۔ میں نے کہا کون سے؟ کہنے لگی کہ ملیحہ کے ساتھ جو وعدہ کیا تھا وہ بھی پورا کرنا۔۔۔۔ میں جھینپ گیا۔۔۔ میں نے کہا کہ اب نہیں۔۔۔ کہنے لگی کہ نہیں ہمارے خاندانوں میں رواج نہیں کہ کسی کا دل توڑیں اور وعدہ نہ پورا کریں۔۔۔ آپ یہ وعدہ ضرور پورا کیجیے گا۔۔۔ میری ریکوئسٹ ہے۔۔۔ میں بولا تمہیں پتہ ہے کہ تم اپنے شوہر سے کیا کہہ رہی ہو؟ اس نے کہا کہ یہ وعدہ میرا شوہر بننے سے پہلے آپ نے کیا تھا اس نے مجھے بتا دیا تھا۔۔۔ اس لیے یہ وعدہ پورا کرنا اور اگر اب کوئی کسی سے وعدہ کریں تو بے شک کر لینا مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا لیکن اگر ایسا وعدہ کسی سے نہ کریں تو مجھے خوشی ہو گی۔۔۔۔ مجھ پر حیرت کا ایک اور پیاڑ ٹوٹ پڑا۔۔۔ بولی کہ اگر آپ ہمارے خاندانوں والی پارٹی میں شامل ہونا چاہیں تو میں منع نہٰں کروں گی بلکہ میں وعدے کے مطابق خود بھی شامل ہوا کروں گی۔۔۔ لیکن وہاں چونکہ سب کی اپنی مرضی ہوتی ہے اس لیے کوئی چدوائے یا نہ چدوائے کسی کو اعتراض کی اجازت نہیں ہوتی اس لیے میں صرف آپ کے ساتھ یہ کر سکوں گی لیکن آپ کو کبھی نہیں روکوں گی کہ آپ کسی کے ساتھ نہ کریں۔۔۔۔ میں خاموش تھا۔۔۔ میری سٹی گم ہو چکی تھی۔۔۔ وہ کم عمر نو خیز گرم لڑکی مجھے لاجواب کر رہی تھی۔۔۔ اس نے سب خاندانوں کو پہلے سے ہی لاجواب کر رکھا تھا۔۔۔۔ اس نے کہا کہ آپ جانتے ہیں میری سیل کس نے توڑی تھی؟ میں چپ رہا۔۔۔۔ بولی کہ میرے ابو نے۔۔۔ جب میں سات سال کی تھی۔۔۔۔ تب سے اس پارٹی میں جاتی لیکن وعدے پورے کرتے رہی اور خاموشی سے ہر ایک سے چدتی رہی۔۔۔ میرے بھیا اور سب انکلز نے مجھے جی بھر کر چودا جیسے ہر عورت وہاں چدتی ہے۔۔۔ سب میرا منہ پھاڑتے تھے اپنے ہتھیار اندر ڈال کر اور نہیں مزہ آتا تھا۔۔۔ وہاں بولنا منع ہے اور کرنا وہی جو سب کر رہے ہیں۔۔۔ لیکن اگر کوئی نہ کرنا چاہے تو زبردستی کی اجازت نہیں۔۔۔میں سن رہا تھا۔۔۔۔ میرا دل کر رہا تھا کہ اس کو سینے سے لگا لوں لیکن ہمت نہیں ہو رہی تھی۔۔۔ وہ یہ سب کچھ کرتی رہی تھی لیکن وہ اس سب سے مُبرا تھی۔۔۔وہ گندی نہیں تھی۔۔۔ وہ میلی نہیں تھی۔۔۔ بولی۔۔۔ ہمت کریں۔۔۔۔ مجھے سینے سے لگا لیں۔۔۔ میں حیران رہ گیا کہ وہ میرا ذہن، میرے دل و دماغ کو پڑھ رہی تھی۔۔۔ میں نے ہمت کی اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا اور بے تحاشا اسے چومنے لگا۔۔۔ فری! میری فری! تم نے مجھے اسیر کر لیا ہے۔۔۔۔ تم میری جان ہو ۔۔۔ میرے کان میں اس کی آواز آئی۔۔۔ میں نے دس سال کی عمر میں آپ کو خواب میں دیکھا تھا۔۔۔ اور جب پرسوں رات اس پارٹی میں آئی اور آپ کو دیکھا تو میں بہت اداس ہوئی کہ یہ تو وہی انسان ہے جو میرا ہے اور میں نے اسے آٹھ سال قبل خواب میں دیکھا اور کئی بار بعد میں بھی خواب میں دیکھا تھا میں ہر نماز میں دعا بھی کیا کرتی تھی کہ کب یہ شخص آئے گا اور مجھے اپنی عزت بنائے گا۔۔۔ اس دن میں اس لیے اداس تھی کہ شاید آپ مجھے ایسی پارٹی کی وجہ سے قبول نہ کریں اسی لیے آپ سے کہا تھا کہ دو تین دن آپ کے ساتھ اکیلے رہنا چاہتی ہوں تا کہ آپ کو یہ سب بتا کر قائل کر سکوں۔۔۔ امی ابو کو میں نے پارٹی مٰں کھانا کھاتے ہوئے بتا دیا تھا کہ یہ دیکھیں یہ وہی شخص ہے جو میرا ہے۔۔۔۔ اس کے ثبوت کے طورپر میں ایک چیز آپ کو دکھانا چاہتی ہوں۔۔۔ اس نے اپنا بیگ کھولا اور ایک نہایت قیمتی سونے کا فریم نکالا اور اس کو کو میرے سامنے کیا جسے دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ اس میں میری تصویر لگی ہوئی تھی جس پر چار سال پہلے کی تاریخ پڑی ہوئی تھی اور وہ تصویر پنسل ورک تھی۔۔۔ میرے کچھ بھی بولنے سے پہلے وہ بولی کہ جب کثرت سے میں نے آپ کو خواب میں دیکھا تو سوچا کہ میں آپ کی تصویر بناؤں۔۔۔ اس کے لیے میں نے پنسل ورک کا آرٹ سیکھا۔۔ میں نے ایک سال میں یہ تصویر مکمل کی اور یہ تصویر میرے ابا نے سونے کے فریم میں لگوا کر میرے کمرے میں میرے سرہانے رکھوا دی تھی۔۔۔ میری فیملی مجھ سے بہت پیار کرتی ہے۔۔۔ جب میں نے امی اور ابو کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ ہم بھی دیکھ رہے ہیں کہ یہ وہی شخص ہے جس کی تصویر تم نے بنائی ہوئی ہے۔۔۔۔لیکن وہ بھی پریشان تھے کہ کیسے وہ تمہیں قبول کرے گا۔۔۔ میں نے کہا کہ میری دعائیں کبھی ضائع نہیں جائیں گی۔۔۔۔ میں کتنی خوش قسمت ہوں کہ آج میں آپ کی قدموں کی زینت ہوں۔۔۔ میں تڑپ اٹھا۔۔۔۔ نہیں فری! تم میرے سر کا تاج ہو۔۔۔ تم میرے پاؤں کی زینت نہیں بلکہ میری عزت ہو۔۔۔ تم واقعی معصوم ہو۔۔۔

تین دن رات ہم نے بدن کی لذت بھی لی لیکن روح کی پیاس زیادہ بجھائی۔۔۔ میں نے اپنے والدین کو بہت یاد کیا۔۔۔

فری! تمہارا پاسپورٹ بنا ہوا ہے؟ ۔۔۔ نہیں۔۔۔ کوئی بات نہیں۔۔۔ کل بنوا لیتے ہیں چار دن میں بن کر آ جائے گا۔۔۔ بولی: امی ابو کی قبر پر لے جانا چاہتے ہیں نا؟ میں بولا: تمہیں تو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔۔۔ بولی کہ آپ کے ابو کی شکل اس طرح کی تھی۔۔۔ آپ کی امی جان ایسی تھیں۔۔۔ اور آپ کی بہن کی شکل ایسی تھی۔۔۔ مجھ پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹنا بند ہو گئے تھے۔۔۔ وہ سو فیصد سچی تھی۔۔۔ اس کی محبت سچی تھی۔۔۔ مجھے اس سے عقیدت ہو گئی تھی۔۔۔۔

شادی کا تیسرا دن تھا ۔۔۔میں نے ہمت کی اور اسے پکڑ لیا اور پھر سب کچھ اس کے اندر نچوڑنے تک اسے نہیں چھوڑا۔۔۔ اس کے بعد بھی اسے چومتا رہا۔۔۔ اس کے ہونٹ۔۔۔ اس کی چھاتیاں۔۔۔ اس کا انگ انگ۔۔۔ میرے ہونٹوں نے مسخر کر لیا تھا۔۔۔ میں بجا فخر کر رہا تھا۔۔۔۔۔

علی الصبح پاسپورٹ آفس ۔۔۔ کاغذ جمع کروائے۔۔۔ ای میل کر کے یو ایس اے ایمبیسی سے انٹرویو کی تاریخ لی۔۔۔ فائل تیار کی۔۔۔ رات بھر بیٹھا رہا۔۔۔۔ وہ مجھے کافی پلاتی رہی۔۔۔۔ ہم بہت کم بات کرتے تھے۔۔۔ بولی۔۔۔ صاحب! آپ آرام سے یہ کام کر لیں۔۔۔ میں بولا۔۔۔ میں پچھلے دس سال سے اماں ابا کی قبر پر نہیں گیا۔۔۔ اب دس دن بھی دور نہٰں رہ پاؤں گا۔۔۔ تم ساتھ ہو گی تو میں وہاں سے زندہ واپس آسکوں گا۔۔۔۔

صبح میرے کان میں بولی۔۔۔ صاحب! تین دن ہو گئے اور والدین سے تین دن کا وعدہ کیا تھا۔۔۔ چلیں؟

میں بولا چلو۔۔۔ اسی طرح ٹراؤزر شرٹ میں نکل کھڑا ہوا۔۔۔ کیری بیگ ساتھ رکھ لیا اورملازم بہت خوش تھے۔۔۔ ہم دونوں کو دیکھتے تو پھولے نہ سماتے۔۔۔

اس کے گھر پہلی بار جا رہا تھا۔۔۔ رستے سے فروٹ۔۔۔ سب کے لیے تحائف لیے اس کی بڑی بہن نائلہ کے خاص تحائف لیے ۔۔۔ اس کی ماما اور بابا کے لیے بھی قیمتی تحائف خریدے۔۔۔ وہ کسی بات پر کچھ نہ کہتی نہ اس نے کہا نہ لیں اور نہ اس نے کہا کہ لیں۔۔۔ میں اس کی ہر ایک ادا پر حیران ہوتا تھا کہ یہ کیسی لڑکی ہے میری کسی بات میں دخل اندازی نہیں کرتی۔۔۔ بس اس کی آنکھوں کا اطمنان اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دیکھ کر میں خوش ہو رہا تھا اور لگ رہا تھا کہ میں جو کر رہا ہوں اس پر وہ خوش ہے۔۔ اور مجھے اس کی خوشی میں خوشی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔

جب اس کے بتائے ہوئے ایڈریس پر پہنچا تو میں حیران رہ گیا۔۔۔۔۔ اس کا گھر کتنا عالی شان تھا۔۔۔ میں نے سوچا بھی نہ تھا۔۔۔۔مجھے اس سے بھی زیادہ حیرت ہوئی۔۔۔ گھر کے اندر جا کر دیکھا تو اور بھی حیران ہوا۔۔۔ ہر طرف نفاست۔۔۔ قیمتی اشیا۔۔ ڈیکوریشن۔۔۔ فانوس۔۔ ایک ایک چیز چن کر لگائی گئی تھی۔۔۔ وہ تو میرے بازو سے لپٹی ہوئی تھی۔۔۔ گھر کے بڑے گیٹ پر سبھی جمع تھے۔۔۔ گلی محلے کے لوگ بھی گلابوں کے ہار لیے کھڑے تھے۔۔۔ پتیاں نچھاور کی جا رہی تھیں۔۔۔ میں حیران تھا۔۔۔ اندر تک گلاب ہی گلاب تھے۔۔۔ صندل اور لبان اندر بھی جل رہے تھے۔۔۔ اندر سے ڈھولکی کی آوازیں آ رہی تھیں۔۔۔ لاؤنج لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔۔۔ ایک طرف ضیافت کی میزیں سجی ہوئی تھیں۔۔ سنہری دسترخوان۔۔۔ خواب کا منظر تھا۔۔۔ پارٹی میں شامل ہونے والے سبھی خاندان جمع تھے۔۔ ہمارے قدموں میں تحائف کا ڈھیر لگ گیا۔۔۔۔ میری کار میں سے تحائف ملازموں نے نکالے اور لا کر اندر رکھ دیئے جنہیں دیکھ کر میں شرمندہ ہو رہا تھا۔۔۔ فری کو کچھ ہوش نہ تھا بس وہ میرے بازو کے ساتھ چمٹی ہوئی تھی۔۔۔ سب سے پہلے اس کے بابا نے اسے سینے سے لگایا اور پیار کیا۔۔ ماما اور نائلہ اور بھائی واجد بھی آ کر اسے چمٹ گئے۔۔ ایک طلسماتی مسکراہٹ والی میری فری سب کو بہت احترام سے مل رہی تھی۔۔۔ اس کی چال میں ایک سادگی اور وقار تھا۔۔۔ اس کے ملنے میں ایک جاذبیت تھی۔۔۔ سبھی لوگ میرے صدقے واری جا رہے تھے۔۔ سر شمائلہ بہن اور ان کے بچے بھی میری بلائیں لے رہے تھے۔۔۔ کسی کو دیکھ مجھے ایسا نہیں لگا کہ کوئی حسد میں مبتلا ہو۔۔۔۔میرے لیے خواب ناک منظر تھا۔۔۔میرا دل نہیں کر رہا تھا کہ فری ایک پل کے لیے بھی میری نظروں سے اوجھل ہو لیکن ماما اسے اندر لے گئیں۔۔۔ فریحہ اور ملیحہ میرے ساتھ چمٹ گئیں اور پیار کرنے لگیں۔۔۔ میں نے بھی ان کو پیار کیا اور اس سے پہلے کہ میں انہیں کچھ کہتا انہوں نے میرا شکریہ ادا کیا۔۔ میں حیران تھا کہ وہ میرا اس بات پر شکریہ ادا کر رہی تھیں کہ میں نے اور فرخندہ نے شادی کر لی۔۔۔۔

کوئی آدھے گھنٹے بعد لاؤنج میں فری ک لایا گیا۔۔۔ میں تو اسے دیکھ کر دنگ رہ گیا۔۔۔ ایسی سجائی گئی دلہن۔۔۔ پھر بھی وہ سادگی کا ایک حسین پیکر نظر آئی۔۔۔۔ اس کی نذر اتاری گئی۔۔۔ میں ابھی تک عام سے ٹراؤزز شرٹ میں تھا۔۔۔ مجھے واجد اور بابا نے کہا آپ اندر آئیں۔۔ میں اندر گیا تو مجھے کہا گیا کہ یہ کپڑے اور شیروانی پہن لیں۔۔۔ میں حیران رہ گیا کہ سونے کے کا اور بٹنوں والی شیروانی اور بہت اعلیٰ کپڑے۔۔۔ میں نے جا کر غسل کیا اور دس منٹ میں کپڑے وغیرہ پہن کر باہر آ گیا۔۔۔ میں فری کے ساتھ بٹھایا گیا۔۔۔۔ فری میرے بازو سے چمٹ گئی۔۔۔۔ میری آنکھوں میں یہ سب پیار دیکھ کر آنسو تیر رہے تھے۔۔۔ سارا محلہ کھانے پر بلایا گیا تھا۔۔۔ سب لگ ہمارے سروں سے وار کر پیسے ہمارے قدموں میں رکھ رہے تھے اور مجھے بتایا گیا کہ یہ صدقہ دیا جائے گا۔۔۔

تھوڑی دیر بعد نائلہ نے کہا کہ بہنوئی صاحب لاگ دیں۔۔۔ میں نے بٹوہ نکالا اور اس کے حوالے کر دیا۔۔۔ میں نے کہا کہ سب کچھ آپ لوگوں کا ہی ہے۔۔۔ نائلہ نے کہا کہ نہیں میں صرف ایک صد ایک روپیہ لوں گی۔۔۔ میں نے کہا کہ جو چاہے لے لو کیونکہ جو تحفہ تم لوگوں نے مجھے دیا ہے وہ دنیا جہان کی دولتوں سے زیادہ قیمتی ہے۔۔۔ مجھے تو حور مل مل گئی مجھے دنیا کی کوئی طلب نہیں رہی۔۔۔

ہنگامہ چلتا رہا۔۔۔ سب نے کھانا کھایا۔۔ ہمیں بھی کھانا پیش کیا گیا۔۔۔ کیا اعلیٰ مزے کا کھانا تھا۔۔۔ ماما نے کہا کہ ہمارا رواج ہے کہ کھانے کا پہلا لقمہ دلہن دولہا کے منہ میں ڈالتی ہے اور پھر دلہا دلہن کے منہ میں اور پھر وہ دنوں اپنا اپنا کھاتے ہیں۔۔۔ فری نے میرے منہ میں لقمہ ڈالا اور میں نے اس کے منہ میں اور پھر ہم نے مناسب سا کھانا سب کے ساتھ مل کر کھایا۔۔۔۔ مجھ سے تو کچھ کھایا نہیں جا رہا تھا کیونکہ میں اپنی حور کے چہرے سے نظریں ہی نہیں ہٹا پا رہا تھا۔۔۔ میرا ذہن اس کے اعلیٰ اخلاق میں کھویا ہوا تھا اور میری آنکھیں اس کے حسین و جمیل چہرے اور سراپے کا طواف کر رہی تھیں۔۔۔۔

سب مہمان کھانا کھا کر تحائف عطا کر کے چلے گئے۔۔۔ اب فریحہ، ملیحہ اور شمائلہ ان کا بھائی اور بابا رہ گئے تھے۔۔۔ ملیحہ مجھ پر نچھاور ہوئی جا رہی تھی۔۔۔ فری نے ملیحہ سے کو بلایا اور کہا کہ میں نے صاحب کو کہہ دیا ہے کہ وہ تم سے کیا ہوا وعدہ ضرور پورا کریں اور وہ کریں گے۔۔۔ میں خود کرواؤں گی اس لیے میری گڑیا پریشان نہ ہونا۔۔۔ اور اس کا منہ چوم لیا۔۔۔۔ ملیحہ نے کہا کہ باجی مجھے پتہ ہے کہ آپ وعدہ کی کتنی پاس داری کرتی اور کرواتی ہیں لیکن مجھے کوئی فکر نہیں بلکہ مجھے تو اس بات کی خوشی ہے کہ انکل اور آپ کی شادی ہو گئی ہے۔۔۔۔۔

میں نے سب کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میرے لیے سب سے قیمتی تحفہ فری ہے۔۔۔ اب شمائلہ لوگ بھی چلے گئے۔۔ گھر کے افراد بچے تھے۔۔۔ ہمیں بیڈ روم میں لے جایا گیا۔۔۔ میں تو دیکھ کر ہی پریشان ہو گیا۔۔۔بہت اعلیٰ قسم کا دبیز فرنیچر ۔۔۔ چنیوٹ سے بنوایا گیا اعلیٰ کاریگری والا لکڑی کا جہازی سائز کا بیڈ۔۔۔ اس پر نہایت اعلیٰ میرون رنگ کی بیڈ شیٹ۔۔۔ بہت خوب صورت اور قیمتی مسہری۔۔۔سجا ہوا کمرہ کسی جنت سے کم کا نظارہ پیش نہیں کر رہا تھااور میری حور کو اس بیڈ پر بٹھا دیا گیا۔۔۔۔ اب گھر کے افراد تھے۔۔۔ لائٹ بالکل ڈم کر دی گئی جسیے اس دن پارٹی میں کی گئی تھی۔۔۔ نائلہ اور ماما نے فری کو زیورات اور بھاری بھرکم کپڑوں سے آزاد کرنا شروع کیا۔۔۔ میں اور فری کے بابا اور واجد بھائی سائڈ والے صوفے پر بیٹھے تھے۔۔۔ پھر جب فری کے جسم پر کوئی کپڑا نہ رہ گیا تو نائلہ میری طرف آئی اور کہنے لگی کہ بہنوئی صاحب آ جائیں اب آپ کی مدد کریں۔۔ اور پھر میرے بھی کپڑے اتارے گئے۔۔۔ اس کے بعد نائلہ نے مجھے کسنگ شروع کی اور ماما اور بابا آپس میں کسنگ کرنے لگے۔۔۔ واجد فری کے بال سہلانے لگا لیکن اس نے فری کے ساتھ کوئی حرکت نہ کی۔۔۔ نائلہ کے منہ میں میرا لوڑا تھا اور فری دیکھ رہی تھی۔۔۔ پھر واجد نائلہ کی چوت چاٹنے لگا اور میں فری کو کسنگ کرنے لگا۔۔ فری میرا ساتھ دینے لگی۔۔۔ اب میرا لن تیار تھا۔۔۔ ماما نے سب سے پہلے میرے اوپر بیٹھ کر اپنی ٹائٹ پھدی میں میرا لن لیا اور ادھر بابا نے نائلہ کی چوت میں اپنا لوڑا گھسا دیا۔۔۔ واجد کا لوڑا اپنی ماما کے منہ میں تھا۔۔۔۔ پھر واجد نے اپنا لن نائلہ کے منہ میں دیا۔۔۔ فری کے ممے میرے ہاتھوں میں تھے اور منہ میں منہ تھا۔۔۔۔ مجھے لگا کہ فری کی پھدیا سے پانی نکل رہا ہے تو میں نے ماما سے کہا کہ تھوڑا مجھے وقت دیں۔۔۔ ماما اوپر سے اٹھیں تو میں نے فری کی پیاری سی پھدیا میں لن ڈال دیا۔۔۔ اور خوب چودنے لگا۔۔۔ تین دن میں پہلی بار میں پورے جوش کے ساتھ فری کو چود رہا تھا۔۔۔ میرے علاوہ فری کو کسی نے ٹچ نہیں کیا تھا۔۔۔۔ نہ فری نے کسی کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ میں فری کے منہ میں منہ ڈالے اس کو مشنری پوزیشن میں چود رہا تھا ادھر نالہ کو اس کے بابا چود رہے تھے اور واجد اپنی ماما کی چوت میں گھسا بیٹھا تھا۔۔۔۔ ایک ہی بیڈ پر خاندانی چدائی جاری تھی۔۔۔ فری پہلی بار کھل کر مجھ سے چوت مروا رہی تھی۔۔۔ میں نے اتنی زور سے اس کی چوت مارنا شروع کی کہ جلد ہی اس کی بڑے بڑے ریشمی بالوں والی چوت سے پانی کے فوارے چھوٹ گئے ۔۔۔ نائلہ اور اس کی ماما کی چیخیں تو بہت زبردست شہوت پیدا کر رہی تھیں لیکن فری کی آواز ایک بار بھی میں نے نہیں سنی تھی۔۔۔ فری ڈسچارج ہو گئی تو سکون سے آنکھیں بند کر کے لیٹ گئی۔۔۔ نائلہ نے مجھے کہا کہ بہنوئی صاحب آ جائیں میرے پاس ابھی فری کو آرام کرنے دیں۔ میں اٹھا اور نالہ کی گانڈ کا سوراخ خالی دیکھ کر اس میں لوڑا گھسا دیا اور زور شور سے چدائی شروع کر دی۔۔۔ اب نائلہ کی گانڈ اور چوت دونوں میں ایک ایک لوڑا تھا۔۔۔۔ کوئی دس منٹ کے بعد آواز آئی کہ داماد جی ادھر بھی نظرِ کرم کر دیں۔۔۔ میں نے ایک فرمانبردار داماد کی طرح سالی کی گانڈ سے لوڑا نکالا اور ساس صاحبہ کی گانڈ میں ڈال دیا کیونکہ ان کی چوت میں ان کا بیٹا گھسا بیٹھا تھا۔۔۔ رات اسی طرح تقریباً دو گھنٹے یہ فیملی گروپ سیکس چلتا رہا اور فری سوئی رہی۔۔ اس کو کسی نے تنگ نہیں کیا۔۔۔ پھر دو گھنٹے بعد وہ چاروں لوگ کہنے لگے کہ اب ہم چلتے ہیں لیکن نائلہ آپ کے ساتھ ہی سوئے گی۔۔۔ میں کہا کہ ٹھیک ہے۔۔۔۔ بابا ، ماما اور بھائی واجد چلے گئے اور میں اور نائلہ نے چدائی کا کام جاری رکھا۔۔۔۔ کوئی ایک گھنٹے بعد فری جاگی اور ہمیں دیکھ کر کہنے لگی کہ ابھی تک آپ لوگ لگے ہوئے ہیں ۔۔۔ میں نے فری سے کہا کہ بس کر دیں تو وہ بولی نہیں لگے رہیں جب تک آپ کا دل کرے۔۔۔ تو میں نے نائلہ کو مزید آدھا گھنٹہ چودا اور پھر اس کی گانڈ میں ڈسچارج ہو گیا اور وہیں دونوں لیٹ کر سو گئے۔۔

علی الصبح مجھے فری نے کافی کی خوش بو سے جگایا۔نائلہ ابھی سو رہی تھی۔۔۔ میری حور میرے لیے کافی لیے کھڑی تھی۔۔۔ وہ دن بھی چہل پہل میں گزر گیا۔۔ میری حور میرا بازو تھامے میرے ساتھ ساتھ رہی۔۔۔ لوگ آ جا رہے تھے اور ملنے ملانے میں وقت گزر گیا۔۔۔ شام کو شمائلہ بہن کی طرف سب کی دعوت تھی۔۔۔ میں نے فری سے کہا کہ ہم ولیمے کی دعوت کریں گے اور سب کو بلائیں گے۔۔ چونکہ میرا تو ہے کوئی نہیں اس لیے یہیں فیصل آباد میں ہی ولیمے کی دعوت کر کے تمہارے سب عزیزوں کو بلا لیتے ہیں۔ فری بولی جو آپ مناسب سمجھیں۔۔۔ میں نے اس کے بابا سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ وہ ولیمے کے لیے سب کو کہہ بھی چکے ہیں اور سب انتظامات بھی مکمل ہیں پرسوں آپ کا ولیمہ ہو گا۔۔۔ میں حیران ہو گیا۔۔ میں نے کہا کہ اس کے اخراجات میرے ذمہ ہوں گے۔۔ وہ بولے کہ ہم لوگ بیٹیوں اور بیٹوں کے ساتھ تیرا میرا نہیں کرتے۔۔ میں تمہیں بل نہیں بتاؤں گا اگر تم نے کچھ حصہ ڈالنا ہوا تو منع بھی نہیں کروں گا۔۔۔ میرا سب کچھ اب تمہارا اور واجد کا ہی ہے۔۔۔ اور جب نائلہ کی شادی ہو گی تو اس کا شوہر بھی تم دونوں کے ساتھ برابر کا حصہ دار ہوگا ۔۔۔ میں سب کے کردار سے بہت متاثر ہو رہا تھا۔۔۔

شام کو ہم شمائلہ، فریحہ اور ملیحہ کے گھر تھے۔۔۔ سبھی خاندان وہاں اکٹھے تھے۔۔۔ وہی ویٹریسز اسی طرح کا انتظام موجود تھا۔۔۔ کھانا ہوا۔۔۔ کھانے کے ساتھ ہی میوزک اور ڈانس پارٹی تھی۔۔۔ سبھی انجوائے کرنے لگے۔۔۔ فری کو کسی نے ہاتھ تک نہ لگایا تھا۔۔ ایک ویٹریس اس کے پاس آئی اور اسے کس کرنے لگی اس نے منع نہیں کیا۔۔۔ اس ویٹریس نے مجھے بھی کس کیا تو میں نے بھی اسے کس کیا۔۔۔۔ اتنے میں عرفانہ اور اس کی والدہ میرے قریب آئیں اور ان کے ساتھ ایک نئی لڑکی تھی۔۔ انتہائی خوب صورت وہ لڑکی عرفانہ کی چھوٹی بہن شاہانہ تھی۔۔۔ شاہانہ کا قد عرفانہ سے لمبا لیکن جسم پتلا تھا۔۔۔ شاہانہ نے مجھ سے ہاتھ ملایا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد لائٹ مدھم کر دی گئی۔۔۔ شاہانہ میرے ساتھ چپکی ہوئی تھی۔۔ اب اس نے میرے منہ سے منہ جوڑ لیا اور ویٹریس ہم دونو کو کپڑوں کی قید سے آزاد کروا رہی تھی۔۔ شاہانہ نے میرے کان میں کہا کہ میں آپ سے سیل تڑوانا چاہتی ہوں کیونکہ میرا فری کے ساتھ یہ وعدہ تھا کہ جس بندے سے تم شادی کرو گی اس سے میں سیل تڑواؤں گی۔۔ پارٹی رولز کے مطابق اب تک میں صرف گانڈ چدواتی رہی ہوں لیکن آج میری پھدیا اور گانڈ دونوں چدیں گی کیونکہ آج میری سیل آپ توڑ دیں گے۔۔۔ آپ کا لوڑا پہلا ایسا لوڑا ہو گا جو میری پھدی کے اندر جائے گا۔۔۔ سیل توڑنے کے لیے آپ سے ریکوئسٹ ہے کہ ایک ہی جھٹکے میں سارا اندر کرنا ہے ورنہ آپ کو میں پارٹی رولز کے مطابق سزا دوں گی۔۔۔ میں یہ رول سن کر بڑا حیران تھا۔۔۔ بولا کہ ایسا ہی ہو گا میڈم! فکر نہ کرو۔۔۔ ویٹریس میرا لوڑا وس رہی تھی۔۔۔ جب ہم دونو مکمل ننگے ہو گئے تو ویٹریس نے ہم دونو کو اٹھایا اور درمیان میں پڑے سنگل بیڈ پر لے گئی وہاں جا کر اس نے ہمیں لیٹنے کو کہا اور پھر فری کو اٹھا کر لائی اور فری کو بھی ننگا کر دیا۔۔ فری خاموشی سے سب کر رہی تھی اس کے چہرے پر ناگواری کے بھی کوئی احساس نہ تھا۔۔ میں جان چکا تھا کہ یہ سب پارٹی رولز ہیں اور فری کو کوئی اعتراض نہیں۔۔۔ ویٹریس نے میرے کان میں کہا کہ آپ نے پہلے فری کی چوت میں ڈالنا ہے اور مکمل گیلا ہونے کے بعد آپ نے شاہانہ کی کنواری پھدی کی سیل توڑنی ہے اور میرے اندر ڈالنے کی آپشن میں موجود ہے لیکن اپنی بیوی کی پھدی کے پانی کے ساتھ آپ کے اپنا لوڑا گیلا کر کے شاہانہ کی سیل توڑنی ہے۔۔۔ میں نے پہلے اسے ہی پکڑ لیا اور فورًا لٹا کر اس کی چوت میں آن واحد میں لوڑا گھسا دیا۔۔ اس کی دبی دبی چیخ نکل گئی۔۔۔ میں نے کوئی ایک دو سیکنڈز میں پندرہ بیس گھسے مار دیئے۔۔۔ جس سے ویٹریس کا پانی نکل گیا اور میرا لوڑا فل گیلا ہو گیا۔۔۔ پھر میں نے ساتھ لیٹی ہوئی فری کی پھدی میں اپنا لوڑا ڈال کر تیزی سے جھٹکے مارے اور اٹھارہویں جھٹکے پر فری بھی فارغ ہو چکی تھی۔۔۔ اب میرا لوڑا پارٹی قانون کے مطابق میری بیوی کے پانی سے گیلا ہو چکا تھا۔۔۔ میں نے ایک بار پورا لوڑا ویٹریس کی پھدی میں ڈالا، وہاں سے نکال کر جڑ تک اپنا لوڑا فری کی پھدیا میں ڈالا اور ساتھ ساتھ شاہانہ کی پھدی پر ہاتھ پھیرتا رہا اور جیسے سے میں نےفری کی پھدیا سے گیلا گیلا لوڑا نکالا تو میں سیدھا شاہانہ کی پھدی کی موری پر لن سیٹ کر کے پوزیشن سنبھال چکا تھا۔۔۔ سبھی ہمارے اردو گرد اکٹھے تھے۔۔۔ جیسے ہی میں نے لوڑا شاہانہ کی پھدی پر سیٹ کیا اور اپنی پوری طاقت جمع کر کے ایک ہی جھٹکے میں شاہانہ کی پھدی کے اندر جڑ تک اتار دیا۔۔۔۔ شاہانہ کی زور دار چیخ نکلی اور چاروں طرف تالیوں کی گونج سنائی دی۔۔۔ میں نے اپنا پورا زور لگا دیا تا کہ میرا لوڑا ذرا سا بھی باہر نہ رہ جائے اور اب میرا لوڑا سارے کا سارا شاہانہ کے اندر تھا۔۔۔۔۔اور وہ مستی سے چیخ رہے تھی۔۔۔ میرے چوتڑوں پر ویٹریس نے وزن ڈالا ہوا تھا۔۔۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میرا لن کسی گرم گرم بھٹی میں پڑا ہوا ہے۔۔۔بہت مزہ آ رہا تھا۔۔۔ میں ہل نہیں پا رہا تھا اور میرا لوڑا شاہانہ کی گرم پھدی میں پھولتا ہوا محسوس ہو رہا تھا ادھر شاہانہ کا مزے سے برا حال ہو رہا تھا اور سبھی اوپر کھڑے دیکھ بھی رہے تھے اور ایک دوسرے کو پکڑا ہوا تھا کسی کا لوڑا کسی کے ہاتھ میں تھا۔۔ پارٹی اپنے عروج کی طرف جا رہی تھی۔۔۔ میں اپنا خون آلود لوڑا مزید اندر پُش کیا۔۔۔ ویٹریس نے دباؤ ہٹا لیا تھا اور میں نے چار پانچ بار اندر باہر کیا۔۔۔ مجھے احساس ہوا کہ میرا لوڑا خون آلود ہے۔۔۔ فری نے مجھے اپنے اوپر کھینچا۔۔ میں نے اپنا لوڑا شاہانہ کی پھدیا سے نکال کر فری کی پھدی میں ڈال دیا۔۔۔۔ اور فری کے ساتھ کسنگ شروع کر دی۔۔۔ دس بارہ گھسے مارنے کے بعد فری نے کہا کہ شاہانہ کی چوت میں ڈال دیں۔۔ میں نے فری کی چوت سے نکالا اور شاہانہ کی چوت میں دوبارہ ڈال دیا۔۔۔ اب میں شاہانہ کو اچھی طرح چود رہا تھا۔۔۔ شاہانہ مزے سے چیخ رہی تھی پھر کیا تھا کہ سبھی نے اسی بیڈ پر پھدیوں میں لوڑے ڈال دیئے۔۔۔ اچانک واجد آگے آیا اور اس نے مجھ سے کہا کہ بہنوئی صاحب اب شاہانہ کو میرے حوالے کر دیجیے کیونکہ کل ہمارا نکاح ہے اور آج یہ سہاگ رات آپ کے ساتھ منا رہی ہے اب مٰں بھی اس کی نتھ اتروائی کی رسم ادا کر لوں کیونکہ پرسوں ہم دونوں کا ولیمہ اکٹھا ہو گا۔۔۔ میں سمجھ گیا۔۔۔ میں اپنی قسمت پر رشک کر رہا تھا۔۔۔ کہ میں نے آج پھر ایک سیل توڑی ہے۔۔۔ مجھے حیرت تھی کہ یہ سب لڑکیاں گانڈ مرواتی تھیں لیکن سیل اپنی پسند کے انسان سے تڑوانے کے لیے بچا کر رکھتی تھیں۔۔۔اور میں انہیں زیادہ ہی پسند آیا تھا کہ یہ مجھ سے سیل تڑوا رہی تھیں۔۔۔ فری نے میرے کان میں کہا کہ چلیں اندر؟ میںنے کہا کہ چلیں۔۔ ہم اٹھے اور اندر چلے گئے جہاں فریحہ اور ملیحہ ہمارا انتظار کر رہی تھیں۔۔۔ ملیحہ نے کہا کہ انکل میری سیل کب توڑنی ہے؟ میرے جواب دینے سے پہلے فری بولی کہ پرسوں ولیمہ ہے لیکن کل صبح تم اپنے انکل کے ساتھ لاہور جاؤ گی اور وہاں تمہاری سیل ٹوٹے گی جبکہ میں یہیں رہوں گی۔۔۔ فریحہ بھی تمہارے ساتھ ہو گی اور نائلہ باجی بھی۔۔۔ ویڈیو بنا کر لانا تا کہ میں دیکھ سکوں کہ تمہارا کتنا خون خرابہ ہوا ہے۔۔۔ میں نے کوئی جواب نہ دینے میں ہی بہتری سمجھی۔۔۔ملیحہ خوش ہو گئی۔۔۔ اتنی دیر میں فریحہ میرا لوڑا اپنے منہ میں ڈال کر چوسنا شروع کر چکی تھی۔

تھوڑی دیر میرے لوڑے کا چوپا لگانے کے بعد فریحہ نے میرا لوڑا اپنی گانڈ کی موری پر سیٹ کیا اور ایک جھٹکے میں جڑ تک میرا لوڑا اپنی گانڈ میں اتار لیا۔۔۔ مجھے لگا کہ کسی تنور میں میرا لن سنک رہا ہو۔۔ پھر اس نے نان سٹاپ اندر باہر کرنا شروع کر دیا اور اسی طرح دس منٹ تک اپر نیچے ہوتی رہی۔۔۔ پھر ملیحہ نے اسے کہا کہ باجی مجھے بھی لینے دو۔۔ میں نے ملیحہ کو کہا کہ سائڈ پر لیٹ جاؤ اور یوں میں نے کروٹ لے کر ملیحہ کی گانڈ پر اپنا لن رکھا اور ایک ہی جھٹکے میں اندر کر دیا جیسا کہ وہ پسند کرتی تھی۔۔۔ جیسے ہی اس کی چیخ نکلی واجد اور شاہانہ بھاگتے ہوئے آئے اور وہاں ہمارے پاس لیٹ کر کر چدائی شروع کر دی۔۔۔ فریحہ شاہانی کی پھدی کا دانہ چاٹ رہی تھی جبکہ واجد کا پتلا لمبا لولوڑا شاہانہ کی چوت میں پھر رہا تھا۔۔۔ پھر اس نے مجھ سے کہا کہ تھوڑی دیر کے لیے میں دو لوڑے لینا چاہتی ہوں تو کیا آپ میری گانڈ میں گھسائیں گے؟ میں نے کہا کہ کیوں نہیں ملیحہ اٹھی اور اس نے میرا لوڑا پکڑ کر شاہانہ کی گانڈ کی موری پر سیٹ کر دیا۔۔۔ شاہانہ نے کہا کہ اگر ایک جھٹکے میں جڑ تک لوڑا ندر نہ کیا تو میں آپ کو سزا دوں گی۔۔۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور اس کی گانڈ میں گھسا دیا۔۔۔ اس کی چوت میں پہلے سے لوڑا موجود تھا اس لیے گانڈ بہت تنگ ہو گئی تھی اب تنگ گانڈ میں موٹا لمبا لن جب اندر گیا تو وہ تڑپ اٹھی اس کی چیخوں نے سب کو انگیخت کر دیا تھا۔۔ اب چدائی فل زوروں پر تھی اور سب ایک ایک کر کے ہمارے کمرے میں اکٹھے ہوتے جا رہے تھے۔۔۔ فری کسی کے ساتھ سیکس نہیں کر رہی تھی نہ ہی اس کے ساتھ کوئی اور سیکس کرنے کی جراءت کر رہا تھا۔۔۔۔ مجھے اس بات پر حیرت تھی کہ وہ خود کسی کے ساتھ سیکس نہیں کر رہی تھی اور نہ ہی مجھے منع کر رہی تھی۔۔۔ نہ ہی اس کے چہرے پر کوئی ناگواری کے اثرات تھے۔۔۔۔ وہ بڑی خوشی خوشی مجھے کس کرتی۔۔ کبھی فریحہ کو کس کرتی اور کبھی ملیحہ کو۔۔۔ اب اس نے شاہانہ کے منہ میں منہ ڈالا ہوا تھا کہ شاہانہ بولی۔۔۔ فرخندہ تم بہت خوش قسمت ہو۔۔۔ فرخندہ بولی کہ صرف میں نہیں ہم سب بہت خوش قسمت ہیں کہ احمد ہماری زندگی میں آئے ہیں۔۔ میں نے انہیں خواب میں دیکھا تھا اور آج میں ان کے پہلو میں ہوں۔۔۔

چدائی ایک گھنٹے تک چلتی رہی۔۔۔ آج ایک نئی ویٹریس آئی تھی اور بے حد حسین اور پتلی دبلی سی تھی۔۔۔ میرا دل تھا کہ اس کی چدائی کروں کیونکہ مجھے اس کی چدائی کا موقع نہ مل سکا تھا۔۔۔سب ڈسچارج ہوتے جا رہے تھے اور کمرے سے باہر جاتے جا رہے تھے، واجد بھی ڈسچارج ہو گیا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔۔۔ میں ابھی تک شاہانہ کو چود رہا تھا۔۔۔ فری کہنے لگی کہ احمد! اگر آپ شاہانہ کو آج رات رکھنا چاہتے ہیں تو ساری رات یہ ہمارے پاس رک سکتی ہے۔۔ میں نے کہا کہ اگر یہ چاہے تو رُک جائے ویسے ہم نے صبح لاہور جانا ہے ۔۔۔ شاہانہ کہنے لگی کہ آج کی رات میں نہیں رک سکتی کیونکہ آج رات واجد اور ابو کے ساتھ گزارنی ہے ہاں ولیمہ والی رات ہم چاروں اکٹھے ہوں گے۔۔ میں نے شکر ادا کیا کہ مجھے آج اس ویٹریس کو چودنے کا موقع ملا جائے گا لیکن میں سوچ رہا تھا کہ میں کیسے اس ویٹریس سے بات کروں گا؟ اتنے میں شاہانہ کہنے لگی کہ اب میں بھی چلتی ہوں واجد کے ساتھ ہی نکل جاؤں گھر کی طرف۔۔ میں نے اس کو چھوڑ دیا۔۔۔ سب باری باری مشروبِ خاص پی کر نکلتے جا رہے تھے۔۔۔ آخر پر وہ دونو ویٹریسز رہ گئیں۔ میری حور کمرے میں ہی سو گئی اور میں کھانے والے روم میں آ کر کپڑے پہننے لگا۔۔۔ تو وہی ویٹریس مجھے دیکھ کر مسکرائی۔۔۔ میں اس کے پاس گیا اور اسے سینے سے لگا کر ایک لمبی کس کی۔۔۔ وہ بھی مجھ سے لپٹ گئی۔۔ میں نے اس کے کان میں کہا کہ میں تمہیں چودنا چاہتا ہوں۔۔ اس نے کہا کہ میں خود آپ سے چدوانا چاہتی تھی لیکن سبھی مردوں نے مجھے باری باری خوب چودا ہے اس لیے آپ کے بیڈ کی طرف اندر نہ جاسکی۔۔ میں حاضر ہوں۔۔۔ میں نے کہا کہ چلو مشروب پی لوں اور تم سب کچھ سمیٹ لو پھر کچھ دیکھتے ہیں۔۔۔ کوئی دس منٹ بعد سب وائنڈ اپ ہو گیا۔۔ ویٹریسز کو لینے گاڑی آئی لیکن میں نے اس ویٹریس کو روک لیا اور ایک ویٹریس چلی گئی۔۔۔ میں نے کہا کہ میں اسے ڈراپ کر دوں گا۔۔۔میرا دل تھا کہ ایک آدھ گھنٹہ اس پر لگا لیا جائے۔۔۔ پھر میں اسے اسی کمرے میں پڑے بیڈ پر چودنا شروع ہوا ۔۔ سبھی اپنے اپنے کمرے میں جا کر سو گئے تھے۔۔۔ میری حور اپنے کمرے میں سو رہی تھی اور میں ویٹریس کو چود رہا تھا۔۔۔ وہ واقعی بہت ٹائٹ تھی۔۔اس کی چوت اور گانڈ دونوں بہت زبردست تھیں۔۔۔ میں نے جی بھر کر اس کی گانڈ اور چوت ماری اور بالآخر ڈیڑھ گھنٹے بعد اس کی گانڈ میں اپنا سارا لوڑا نچوڑ دیا۔۔۔ وہ کہنے لگی کہ میں رات یہیں رک جاتی ہوں۔۔۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے میں اپنی حور کے پاس جاتا ہوں تم بھی وہیں آ جاؤ بے شک۔۔۔۔۔ وہ کہنے لگی کہ ٹھیک ہے۔۔۔ پھر وہ بھی وہیں آ کر ہمارے ساتھ ہی ڈھیر ہو گئی،،، میری حور سوتے میں اتنی پیاری لگ رہی تھی کہ میں نے بے ساختہ اسے چوم لیا۔۔۔ وہ کروٹ لے کر پھر سو گئی اور میں اس ویٹریس کے ساتھ لیٹ کر کسنگ کرنے لگا۔۔۔ وہ مجھے کہنے لگی کہ آپ واقعی بہت سٹرانگ ہیں۔۔۔ میرا لوڑا پھر کھڑا ہو چکا تھا میں نے اسے کہا کہ کروٹ لے کر دوسری طرف منہ کر لو اور میں نے پیچھے سے اس کی گانڈ میں ایک بار پھر لوڑا ڈال دیا لیکن دس منٹ کی چدائی کے بعد تھک گیا اور اندر لن ڈالے ڈالے ہی سو گیا۔۔۔

کافی کی مخصوص خوش بو سے میری آنکھ کھلی۔۔۔ میں بیڈ پر اکیلا تھا میری حور میرے سرہانے کافی کا کپ لے کر کھڑی تھی۔۔ بولی صاحب! اٹھ کر کافی پی لیں۔۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اسے میری پسند کی کافی بنانی کیسے آتی ہے حالانکہ میں نے اسے ایک بار بھی نہیں بتایا تھا کہ میں کیسی کافی پیتا ہوں اور نہ ہی اس کے ساتھ اس سے پہلے کافی پی تھی۔۔ بہرحال کافی کی خوش بو مجھے جگانےکے لیے کافی ہوا کرتی ہے اسے یہ بھی معلوم تھا۔۔ وہ ہر ایک سیکسی لڑکی کی طرح کبھی مجھے کس کر کے نہیں جگاتی تھی۔۔ ہمیشہ بڑے ادب کے ساتھ فاصلہ رکھ کر جگاتی تھی۔۔۔ وہ عام لڑکی نہیں تھی۔۔۔ وہ بے حد حسین اور نازک تھی۔۔۔ وہ بہت اچھی تھی۔۔ میں انہی خیالات میں گم تھا کہ مترنم آواز آئی۔۔ صاحب! میرے متعلق ہی سوچتے رہیں گے یا وعدہ بھی پورا کرنے جائیں گے؟ میں چونک اٹھا کہ یہ میرا من پڑھ لیتی ہے۔۔۔ کیسے؟

ہم اٹھے تیاری کی۔۔ ملیحہ فریحہ اور نائلہ تیار تھیں۔۔۔ کار نکالی بیٹھے۔۔۔ فری کو اس کے امی ابو کے پاس چھوڑا۔۔۔ ہم نے لاہور کی راہ لی۔۔۔ آج ایک نئی منزل سر کرنی تھی۔۔۔ ملیحہ آج کی وی آئی پی شخصیت تھی اس لیے وہ میرے ساتھ فرنٹ پر بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔ آج میری زندگی کی سب سے کم عمر پھدی کی سیل میرے ہی لوڑے سے ٹوٹنےوالی تھی۔۔۔ میں اڑتا جا رہا تھا۔۔ رستے میں ایک د و بار رک کر ہم نے کچھ کھایا پیا میں نے کافی لی۔۔۔ میرا دل و دماغ فری میں اٹکا ہوا تھا۔۔۔ میرا دل نہیں کر رہا تھا کہ میں اس سے دور جاؤں۔۔۔ لیکن مجھے اس کی بات کا مان بھی رکھنا تھا کہ وعدہ پورا کرو ۔۔۔۔ میں وعدہ پورا کرنے جا رہا تھا لیکن مجھے اب کسی اور میں اتنی کشش محسوس نہیں ہو رہی تھی۔۔۔ میں اس کے ساتھ لیٹ کر ہر پھدی اور گانڈ مار سکتا تھا لیکن اس سے دور جانا یا الگ رہنا میرے لیے مشکل ہو رہا تھا۔۔ بہرحال ہم لاہور پہنچے۔۔۔ ملازمین گھر کا کام مکمل کر کے جا چکے تھے۔۔ ہم باہر سے مچھلی کھا کر گھر پہنچ گئے۔۔۔ابھی شام ہو رہی تھی۔۔۔ میرا من اداس تھا۔۔۔ میں اس تبدیلی پر حیران تھا ج میرے اندر آ گئی تھی۔۔ مجھے کبھی کسی کی پروا نہیں ہوئی تھی۔۔ فون کی بیل نے مجھے اس ملگجے سے نکالا۔۔۔

حور کہہ رہی تھی صاحب! اداس نہ ہوں وعدہ پورا کریں اور میرے پاس آ جائیں۔۔۔ میں حیران تھا۔۔۔ وہ پاس نہیں تھی لیکن میرے اندر تھی۔۔ میں کچھ نہ بولا۔۔۔ اس نے اپنی عادت کے برخلاف مجھے ایک کس دی اور فون بند کر دیا۔۔۔۔

نائلہ، فریحہ اور ملیحہ نے مجھے پکڑ لیا۔۔ میرا جسم ان کے ہاتھوں میں تھا لیکن روح کہیں اور تھی۔۔ میں نے خد ک ان کے سپرد کر دیا۔۔۔ تینوں ننگی ہ چکی تھیں اور ایک دوسری کو چاٹ رہی تھیں۔۔۔ میرا لوڑا کس کے منہ میں تھا اور کس کا منہ میرے منہ میں تھا مجھے کچھ علم نہ تھا۔۔۔ پتہ نہیں اس طرح کتنی دیر لگ گئی۔۔ گھر میں نصب کیمرے سب کچھ ریکارڈ کر رہے تھے۔۔۔ ادھر نائلہ، ملیحہ اور فریحہ کے موبائل بھی سیٹ کر دیئے گئے تھے اور ہماری ویڈیو بھی بن رہی تھی تا کہ میری حور اسے دیکھ سکے۔۔۔ میں خود میں نہیں تھا۔۔۔ میں وہاں تھا ہی نہیں لیکن میرا لوڑا چوسا جا رہا تھا اور میے ہونٹ اور زبان بھی چوسی جا رہی تھی۔۔۔ اچانک ملیحہ نے کہا کہ انکل میں تیار ہوں۔۔۔ اس کے 32 کے ممے تنے ہوئے تھے۔۔۔ اس کی آواز سن کر مجھے ہوش آیا۔۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ وعدہ پورا کرنے کے لیے ملیحہ کو سیدھا لٹایا اور اس کی پھدی پر لوڑا سیٹ کر دیا۔۔۔ ابھی میں نے پوری طاقت جمع کرنی شروع کی کہ ایک ہی جھٹکے میں اس کی سیل توڑ کر جڑ تک اندر گھسا دوں گا ۔۔۔ نائلہ نے کہا کہ بھیا ایک منٹ رکنا۔۔۔ میں ٹھہر گیا۔۔۔ اس نے اپنا موبائل بالکل قریب کر لیا اور کہا کہ ہاں اب کر دیں اندر۔۔ میں نے اپنی پوری طاقت جمع کر کے لوڑا پوری قوت کے ساتھ اندر گھسا دیا۔۔۔ اچانک لوڑا اندر گیا تو ملیحہ بلبلا اٹھی۔۔۔ اس کی چیخیں نکل گئیں لیکن اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے میرے چوتڑ اپنی طرف کھینچے ہوئے تھے اور میں نے لوڑا جڑ تک اس کے اندر ڈال رکھا تھا اور اوپر سے فریحہ نے دباؤ بڑھایا ہوا تھا۔۔۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ بہت خون زیری ہو گئی ہے اور ملیحہ بے ہوش ہو چکی تھی۔۔۔ میرا موٹا اور لمبا لوڑا جڑ تک اس کے اندر گھسا ہوا تھا اور اب مجھے ڈر تھا کہ باہر نکالتے ہوئے پتہ نہیں کیا کیا ساتھ لے کر نکلے گا۔۔۔ میرا لوڑا ندر پھولتا جا رہا تھا۔۔۔ تھوڑی دیر اسی پوزیشن مٰں رہتے ہوئے میں نے لن اندر ہی رکھا اور ملیحہ بے ہوش پڑی رہی۔۔ پھر اچانک میں نے اس کی پھدی کے باہر نکالا اور ایک بار پھر ایک ہی جھٹکے میں اندر کر دیا۔۔۔ اب میں نے اس کے چوتڑ پکڑ کر تیزی سے گھسے مار کر اندر بایر کرنا شروع کر دیا ۔۔۔ بیڈ شیٹ لال ہو چکی تھی۔۔۔ خون میرے لوڑے کا بھی رنگین کر چکا تھا اور فریحہ نے اپنے خون اپنے ہاتھوں پر لگا کر اپنی اور نائلہ کی پھدی پر لگا دیا تھا۔۔۔ فریحہ مجھ سے کہنے لگی کہ انکل ملیحہ کا خون خرابہ مجھ س بھی زیادہ ہوا ہے۔۔۔ دیکھیں ابھی تک خون بہہ رہا ہے۔۔۔ میں نے اس کی بات ان سنی کر کے نائلہ کو کتیا بنایا اور اس کی چوت میں خون آلود لوڑا گھسا دیا۔۔۔ اور تیزی سے اس کے گھسے مارنے لگا۔۔۔ ملیحہ ابھی تک بے ہوش تھی اس کی پھدی سے کچھ لوتھڑے میرے لوڑے کے ساتھ ہی نکلے تھے۔۔۔وہ اب نائلہ کی پھدی میں چلے گئے تھے۔۔۔ اتنے میں میں نے فریحہ کو پکڑا اور اس کو نائلہ کے اوپر لٹا کر اس کی پھدیا میں لوڑا گھسیڑ دیا۔۔ اب نائلہ اور فریحہ کی پھدیا میں باری باری لوڑا اندر باہر کر رہا تھا اور بہت مزہ آ رہا تھا کہ دس منٹ کی چدائی کے بعد میں نے دیکھا کہ ملیحہ کو ہوش آ گیا۔۔۔۔ ملیحہ نے دیکھا کہ وہ خون میں لتھڑی پڑی ہے اور میں نائلہ اور فریحہ کی چوت اور گانڈ مار رہا ہوں۔۔ اس نے رہا نہ گیااور وہ مجھے آئی لو یو بولتے ہوئے میرے ہونٹوں سے چپک گئی لیکن اس کی آہ نکل رہی تھی وہ درد کے مارے کراہ رہی تھی۔۔۔ اب وہ اگلی پارٹی کے لیے تیار تھی کہ اس کی گانڈ اور چوت میں لوڑے بہ یک وقت جا سکتے تھے۔۔۔ میں نے وعدہ پورا کر دیا تھا اور اب ایک بار پھر میں نے فریحہ کی چوت سے لوڑا نکال کر نائلہ گانڈ میں گھسایا اور پھر وہاں سے نکال کر ملیحہ کی گانڈ میں گھسا دیااور پھر اس کی چوت میں ڈال کر اسے گود میں بٹھا لیااور اسے چودنے لگا۔۔۔۔ وہ رات اسی طرح تینوں کو چودتے گزری۔۔۔۔ صبح کے قریب ہم لوگ نڈھال ہو کر سو گئے۔۔۔ صبح کافی کی خوش بو سے میری آنکھ کھلی۔۔۔ میں نے جیسے ہی کافی کی خوش بو محسوس کی تو فورا آنکھ کھول دی۔۔۔ میں سمجھا کہ میری حور لیرے لیے کافی لیے کھڑی ہے۔۔۔ لیکن وہاں ملیحہ کافی لیے کھڑی تھی اور میرے ہونٹ چوس رہی تھی۔۔

ہم جاگے ۔۔۔ نائلہ اور فریحہ ناشتہ بنا رہی تھیں کہ میں نے ملیحہ کی ایک زور دار چدائی کی اور اس بار پھر اس کی پھدی سے خون نکلا مجھے حیرت ہوئی کہ دوسری بار چت مارنے سے آج تک کسی کا خون نہیں نکلا تھا اس کا کیوں نکلا؟ لیکن مجھے جواب مل گیا تھا کہ اس کی پھدیا انتہائی تنگ تھی پہلی بار خون پردۂ بکارت پھٹنے کی وجہ سے نکلا تھا لیکن دوسری بار اس کی چوت پھٹنے کی وجہ سے نکل رہا تھا۔ اور وہ اس کا بہت انجوائے کر رہی تھی۔ ہم نے خوب چدائی کی اور اس دوران فریحہ بھی آ گئی تو میں نے اس کی گانڈ میں بھی لوڑا گھسا دیا۔۔۔ دونوں بہنوں کی جم کر چدائی کرنے کے بعد نائلہ نے کہا کہ میں نے آپ کی منی کھانی ہے تو اس کے منہ میں میں نے اپنا مادہ نکال دیا۔۔۔ ہم نے ۔۔ ناشتہ کیا اور پھر سب مل کر باتھ ٹب میں گھس گئے۔۔۔ گرم گرم پانی سے سب کی صفائی ہوئی۔۔۔ دکھتے ہوئے جسموں کو ٹکور ہوئی اور بہت سکون محسوس ہوا۔۔ ٹب میں نائلہ نے میرا لوڑا خوب چوسا اور پھر اپنی گانڈ میں ڈلوایا میں نے بھی جی بھر کر اس کی چدائی کی۔۔۔ تینوں کو باتھ ٹب میں چودا اور دو گھنٹے سے زیادہ باتھ ٹب میں گزارنے کے بعد اب مجھے کھانے اور کافی کی طلب ہو رہی تھی۔۔۔ نائلہ کہنے لگی کہ بہنوئی صاحب میرا خیال ہے کہ اب ہمیں نکلنا چاہیے اور کھانا کھا کر فیصل آباد کے لیے بھی نکلنا چاہیے کیونکہ کل ولیمہ ہے اور جا کر سبھی کو تیاری بھی کرنی ہے۔۔۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔۔

ملیحہ کو میںنے باتھ ٹب میں ہی اٹھا لیا اور اس کے ساتھ کسنگ کر رہا تھا۔۔۔ ملیحہ کے ساتھ کس کرنے کا بہت مزہ آتا تھا کیونکہ اس کے منہ سے بہت ہی پیاری مہک آتی تھی۔۔ ایسی مہک جو میں نے صرف اپنی حور کے منہ سے آتی محسوس کی تھی اور دوسری لڑکی ملیحہ تھی۔۔ ملیحہ نے مجھے کہا کہ میں چاہتی ہوں کہ آپ مجھے پریگننٹ کر دیں اور میں آپ جیسا ایک بیٹا پیداکروں تو میں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ مجھے آپ جیسے سیکسی بیٹی چاہیے ہو آپ سے۔۔۔ تو ملیحہ کہنے لگی کہ ٹھیک ہے دونوں میں سے کوئی بھی مل جائے۔۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔۔ تمہیں یہیں ہمارے ساتھ رہنا ہو گا بچہ پیدا کرنے تک کیونکہ تم اپنے گھر میں نہیں رہ سکو گی اس حالت میں لوگ گلی محلہ کے دیکھیں گے تو کیا کہیں گے جبکہ یہاں کسی کو کچھ اندازہ نہیں ہو گا۔۔۔ ملیحہ کہنے لگی کہ فکر نہ کریں میں فرخندہ باجی سے بات کر چکی ہوں اور اپنے امی ابو سے بھی کہ اب میں انکل اور فرخندہ باجی کے ساتھ لاہور میں رہوں گی اور کسی کو کوئی اعتراض نہیں اس لیے اب میں آپ کے لیے بچے پیدا کروں گی اور آپ فرخندہ باجی کے ساتھ انجوائے کرنا۔۔۔ میں نے کہا کہ پہلے مزے مکمل کرن دو پھر اگلے مہینے سے تمہیں پریگننٹ کرنے کا سوچیں گے۔ ملیحہ بولی کہ ٹھیک ہے ایک ماہ مزے کرتے ہیں پھر بچہ پلان کریں گے کیونکہ مجھے بچہ پیدا کرنے کا بہت شوق ہے ۔ ہم باتیں بھی کر رہے تھے اور ساتھ ساتھ واپسی کی تیاری بھی۔۔۔ فریحہ ایک بار پھر چدوانا چاہتی تھی۔۔ اس نے میرے ساتھ کسنگ شروع کر دی۔۔ میں نے بھی اسے پکڑ لیا اس کی ممے اب بڑے محسوس ہو رہے تھے۔۔ ملیحہ نے کہا کہ میں تھوڑی دیر لیٹنا چاہتی ہوں۔۔۔ نائلہ اور ملیحہ دوسرے بیڈ روم میں چلی گئیں اور میں فریحہ کو وہیں چودنے لگا۔۔۔ ہم نے ایک زور دار چدائی آدھے گھنٹے کے لیے کی اور پھر ہم اسی طرح اٹھے اور بغیر نہائے جلدی سے باہر نکلے اور فیصل آباد کو نکل گئے ۔۔۔ رستے میں ملازمین کو کال کر دی کہ گھر کو اچھی طرح سیٹ کر دیں اور دلہن کے لیے خصوصی انتظامات کر دیں اور دوسرے بیڈ روم کو بھی خوب صورت سجا دیں اور جو تیسرا کمرہ ہے اسے بھی بیڈ روم بنا دیں اور اس کو کم از کم دس مہمانوں کے لیے سجا دیں۔۔ ۔۔ میں سمجھ سکتا تھا کہ اب سب لوگوں کا میرے گھر میں آنا جانا ہو جائے گا اس لیے میں سب کے لیے پہلے سے انتظامات کرنا چاہتا تھا۔۔۔ فریحہ اور ملیحہ کو ڈراپ کر کے سیدھے نائلہ کے گھر گئے۔۔ وہاں میری حور میرا انتظار کر رہی تھی۔۔۔ حور نے مجھے بے ساختہ سینے سے لگا لیا۔۔۔ اور سب کے سامنے ہی میرے ہونٹوں پر کس کر لیا۔۔ میں بہت حیران ہوا۔۔۔ حور بولی: کیسا رہا؟ میں نے کہا کہ ہر وقت تمہیں مس کرتا رہا۔۔ بولی: جانتی ہوں۔۔۔ میں نے بیچھے ہٹتی ہوئی حور کو ایک بار کس کر اپنے ساتھ چمٹا لیا۔۔۔ اور بے ساختہ چومنے لگا اور بار بار کہہ رہا تھا کہ I Love you. میں حیران تھا کہ مجھے کیا ہو گیا ہے۔۔۔ حور خاموشی اور گرم جوشی سے میرے ساتھ لپٹی رہی۔۔۔ وہ بھی میرے اندر گھس جانا چاہتی تھی۔۔۔ ہم اسی حالت میں کھڑے تھے کہ شاہانہ اور واجد آ گئے اور کہنے لگے کہ بھائی تیار ہو جائیں مہمان آ رہے ہیں۔۔۔ میں نے ان کی بات ان سنی کر کے حور کو اٹھایا اور اندر اس کے بیڈ روم میں لے گیا۔۔۔ میں اس کےساتھ بہت پیار کرنا چاہتا تھا۔۔۔ حور خاموشی سے میرا ساتھ دے رہی تھی۔۔۔ میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔۔۔ میں اسے کہتا جا رہا تھا کہ آئی لو یو۔۔میری حور! میری حور! وہ مجھے اپنے اندر سمیٹتی جا رہی تھی۔۔۔ میں اس کے اندر گھستا جا رہا تھا۔۔۔ ہم نے کپڑے نہیں اتارے تھے نہ ہی اس کا خیال تھا بس میں اس کے ہونٹ اور زبان چوس رہا تھا اور وہ یرے ساتھ دیوانہ وار کسنگ کر رہی تھی۔۔۔ مجھے لگ رہا تھا کہ مجھے اور کچھ نہیں چاہیے بس اس کا ساتھ اور اس کے ہونٹ اور زبان ۔۔۔۔۔۔ وہ بھی کوشش نہیں کر رہی تھی کہ ننگی ہو کر میرے ساتھ سیکس کرے۔۔ وہ سب سے الگ سی تھی۔۔۔ مجھے بھی اس کا پیار چاہیے تھا ۔۔۔ بس پیار۔

بیڈ روم کا دروازہ کھلا تھا اور ہم دونوں اندر کسنگ کر رہے تھے کہ واجد اور شاہانہ اندر آ گئے۔۔ وہ ہمیں دیوانہ وار کسنگ کرتے ہوئے دیکھ کر ہمارے قریب آ گئے۔۔۔ شاہانہ حور کے سر کی طرف آ گئی اور واجد نے حور کے کپڑے اتارنے شروع کیے۔۔ تھوڑی دیر میں شاہانہ اور حور دونوں ننگی ہو چکی تھیں اور شاہانہ نے مجھے بھی ننگا کر دیا۔۔ واجد حور کی پھدیا چاٹنے لگا۔۔ میں شاہانہ کی پھدیا چاٹنے لگا۔۔ شاہانہ نے میرا للا منہ میں ڈال کر چوسنا شروع کیا۔۔۔ تھوڑی ہی دیر میں واجد اپنی بہن فرخندہ کو چود رہا تھا اور وہ آرام سے چدوا رہی تھی اور میں نے شاہانہ کی چوت میں لوڑا گھسیڑ دیا۔۔۔ اب ہم چاروں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو رہے تھے۔۔۔ کبھی میں فرخندہ کو چودتا اور کبھی شاہانہ کو اور ہمارا بس نہیں چل رہا کہ دونوں کو ایک ساتھ کیسے ایک لوڑے کے ساتھ چودا جائے۔۔۔ پھر میں اور واجد نے پہلے شاہانہ کی چت اور گانڈ میں اپنے لوڑے ڈالے اور دس منٹ تک اسے چودا اور پھر فرخندہ کی چوت اور گانڈ میں لوڑے ڈال کر کوئی پندرہ منٹ خوب وائلڈ طریق پر چودا۔۔۔ اب پہلے بار اس کے منہ سے مزے کی آہیں نکل رہی تھیں۔۔۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹہ کی بھرپور چدائی کے بعد واجد نے اپنی منی شاہانہ کے منہ میں نکال دی جو اس نے فرخندہ کے منہ میں انڈیل دی۔۔۔ فرخندہ نے واپس اس کے منہ میں انڈیل دی۔۔۔ واجد دوں کے ہونٹ باری باری چوس رہا تھا۔۔۔ اور اپنی منی کھا رہا تھا۔۔۔ اچانک فرخندہ نے میرے منہ کے ساتھ اپنا منہ لگا کر واجد کی تھوڑی سی میرے منہ میں ڈال دی۔۔۔ میں نے اسے لے لیا۔۔۔ اور حور کی زبان چوسنے لگا۔۔ ساتھ ہی شاہانہ نے میرے منہ کے ساتھ منہ لگا دیا اور اس کے منہ سے واجد کی کچھ منی میرے منہ میں آ گئی۔۔۔ میں نے واپس اس کے منہ میں ڈال دی۔۔۔ ہم تینوں کی زبانیں آپس میں مکس ہو رہی تھیں۔۔۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ میرا منہ تو ان دونوں لڑکیوں کے منہ میں ہے تو میرا لوڑا کس کے منہ میں ہے؟ میں نے جیسے ہی نیچے دیکھا تو نیچے واجد میرا لوڑا منہ میں ڈالے چوس رہا تھااور تیزی سے میری مٹھ مار رہا تھا تا کہ میری منی نکال سکے۔۔۔ اچانک میری منی نکلنے لگی اور وہ ساری کی ساری واجد کے منہ میں چلی گئی جو اس نے کچھ حور اور کچھ شاہانہ کے منہ میں ڈال دی اور پھر ہم چاروں کے منہ میں میری منی گھومنے لگی۔۔۔ شاہانہ اور فرخندہ کے جسم، مموں اور پیٹ پر بھی وہ منی گر گئی اور وہاں واجد نے اسے دونوں کے جسموں پر ملنا شروع کر دیا۔۔۔۔ میں ان کے ساتھ ہی مصروف تھا۔۔۔ ہم چاروں نے بہت پیار کیا۔۔۔ حالانکہ میرا ارادہ سیکس کا بالکل بھی نہیں تھا میں تو اپنی حور کے ساتھ پیار کرنا چاہتا تھا بہت زیادہ پیار۔۔۔۔

ہم چاروں فارغ ہو چکے تھے۔۔۔ ایک دوسرے کےسا تھ چمٹے چمٹے تھوڑی دیر کے لیے آنکھیں بند کر لیں لیکن میرا منہ میری حور کے منہ میں ہی تھا۔۔۔۔ہم دونوں کسنگ کر رہے تھے۔۔۔ اور کرتے ہی چلے چا رہے تھے۔۔۔ شاہانہ اور واجد الگ الگ لیٹے تھے اور لگ رہا تھا کہ وہ پُرسکون ہو کر سو گئے ہیں۔۔۔ لیکن میرا دل تھا کہ اپنی حور کو کسنگ کرتا جا رہا تھا۔۔۔ وہ بھی میرے ساتھ چمٹتی جا رہی تھی۔۔۔۔

کوئی دو گھنٹے بعد واجد کی امی نے آ کر کہا کہ اب مہمان آنے شروع ہو چکے ہیں اور واجد اور شاہانہ کا نکاح ہے اس لیے تم چاروں تیار ہو جاؤ۔۔ میں نے کہا کہ اصل تو واجد اور شاہانہ کو تیار ہونا چاہیے ہماری خیر ہے۔۔۔ واجد اور شاہانہ اٹھے اور اپنے کپڑے سنبھالتے ہوئے باتھ روم میں گھس گئے۔۔۔ واجد کی امی نے میرے جسم پر ہاتھ پھیرنا شروع کیا اور میرے سوئے ہوئے لوڑے تک پہنچ گئیں۔۔۔ اچانک انہوں نے میرا لوڑا چوسنا شروع کر دیا۔۔۔ میرا لوڑا جلدی کھڑا ہونے والا نہیں تھا کیونکہ کافی دنوں سے بہت زیادہ چدائی کر رہا تھا۔۔ لیکن ایک تجربہ کار عورت کے منہ اور ہاتھ میں جادو تھا اس لیے میں نے محسوس کیا کہ میرا لوڑا پھر سے کھڑا ہونا شروع ہو گیا ہے۔۔۔ میں نے انتظار کیا اور تھوڑی ہی دیر بعد میرا لوڑا کھڑا ہو گیا لیکن وہ چوستی جا رہی تھیں۔۔۔ اچانک انہوں نے اپنے ٹائیٹس نیچے کر کے اپنے چوتڑ ننگے کیے اور میرے لوڑے کے اوپر آ گئیں اور بغیر کسی وقفے کے میرا لوڑا اپنی گانڈ کے سوراخ پر سیٹ کیا اور پھڑک کر کے میرے لوڑے پر بیٹھ گئیں اور میرا لوڑا جڑ تک اندر لے لیا۔۔۔ میرا منہ میری حور کے منہ میں تھا جبکہ لوڑا اس کی ماں کی گانڈ کی سیر کر رہا تھا۔۔۔ زور زور اسے اندر باہر کرنے کے لیے وہ میرے لوڑے پر اچھل رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ فرخندہ یہ تحفہ ہمارے خاندان کو ملا ہے یہ بہت زبردست ہے۔۔۔ اور ساتھ ساتھ زور شور سے میرے لوڑے کو چود رہی تھیں۔۔ میں ان سب لوگوں پر حیران تھا۔۔۔کیسے لوگ ہیں یہ۔۔۔ لیکن میں اپنی حور کو چوم رہا تھا اور چومتا چلا جا رہا تھا۔۔۔ میرے جسم پر وہ دو بار اپنی تیز دھار منی ھوڑ چکی تھیں۔۔ وہ جب ڈسچارج ہوتیں تو ایک تو شور مچاتیں اور دوسرے بہت لمبی دھاریں چھوڑتیں تھیں۔۔۔ انہوں نے میرا جسم بھی گیلا کر دیا ساتھ اپنی بیٹی کا جسم بھی اور بیڈ بھی گیلا ہو ا۔۔۔ دو بار وہ ڈسچار و چکی تھیں حالانکہ میرا لوڑا ن کی گانڈ میں تھا۔۔۔۔ اور دس منٹ کے بعد انہوں نے گانڈ سے لوڑا نکالا اور چوت میں ڈال لیا۔۔۔ مجھے لگا کہ کسی تنور میں میرا لوڑا ڈال دیا ہو۔۔۔ میں مزے سے بے حال ہو گیا۔۔۔ اب چوت میرا لوڑا چود رہی تھی۔۔۔۔ وہ ہم دونوں کے چہروں پر جھک گئیں اور ہم دونوں کا منہ چومنے لگیں۔۔۔ فرخندہ کے چہرے پر میری اور واجد کی منی لگی ہوئی تھی جو انہوں نے چاٹنی شروع کر دی اور ساری چاٹنے کے بعد ہم دونوں کی زبانوں اور ہونٹوں کو چوسنے لگیں۔۔۔ ہم نے بھی ان کا ساتھ دیا۔۔۔ اتنے میں واجد اور شاہانہ نہا کر باتھ روم سے نکلے اور خاموشی سے بیڈ روم سے باہر نکل گئے۔۔۔۔ ادھر واجد کی امی ایک بار پھر ڈسچارج ہو گئیں اور ا بار بہت تیز دھاریں پانی کی ان کے جسم میں سے نکلیں اور مجھے مزید گیلا کر دیا مجھے ان کے گرم گرم پانی نے بہت ایکسائٹ کر دیا اور میں نے انہیں پکڑ کر بیڈ پر لٹایا اور مشنری پوزیشن میں ان کے اوپر آ کر انہیں زور سے چودنا شروع کر دیا۔۔۔ اب میرا منہ براہِ راست ان کے منہ پر تھا اور میرے ہاتھ ان کی قمیص کے اپور سے ہی ان کے مموں پر تھے جنہیں میں دبا رہا تھا۔۔۔۔ میں نے کوئی دس منٹ ان کی چدائی کی اور اس کے بعد ان کے منہ میں لوڑا ڈال کر اپنی منی نکال دی۔۔۔ منی زیادہ تو نہیں نکلی لیکن جتنی نکلی وہ انہوں نے فرخندہ کے منہ میں ڈال دی اور پھر ہم تینوں نے ایک دوسرے کے منہ کے ساتھ منہ لگا لیا۔۔۔ اور اچانک وہ کہنے لگیں کہ میرا بالکل ارادہ نہیں کہ میں آج تمہیں چودتی لیکن تمہارے اندر ایسی بات ہے کہ تمہیں اور تمہارے لوڑے کو دیکھ کر رہا نہیں جاتا اس لیے بغیر کسی پروگرام کے تمہیں چود ڈالا۔۔۔ میں باہر جا کر ایک مشروب بھجواتی ہوں وہ پی لو کیونکہ آج رات کی پارٹی ہے اور صبح ولیمہ ہے۔۔۔ تمہیں بہت ساری انرجی کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے خاندانوں کی ہر ایک عورت اور لڑکی تم سے چدوانا چاہتی ہے۔۔۔ میں نے کہا کہ آج کی رات رہنے دیں کل کی رات رکھ لیں کیونکہ آج کی رات میں اپنی حور کے ساتھ سکیلے گزارنا چاہتا ہوں۔۔۔ انہوں نے کہا کہ اچھا کیا تم نے بتا دیا کیونکہ ابھی ہم نے سب کو انویٹیشن بھیجنا تھا ہم ایسا کرتے ہیں کہ کل کی بجائے بھی پرسوں رکھ لیتے ہیں۔۔۔۔ میں نے کہا یہ بھی ٹھیک ہے۔۔۔ پھر ہم سب تیاری ہو کر باہر آ گئے اور دیکھا کہ ہال میں مہمان آ رہے ہیں اور بہت سے مہمان آ بھی چکے ہیں۔۔۔

شام ہو چکی تھی۔۔ خوش بو ہر طرف پھیل رہی تھی۔۔۔ میں نے حور سے کہا کہ میرے ساتھ ساتھ رہنا۔۔۔ حور نے مجھے کس کر پکڑ لیا۔۔ میں نے اسے وہیں کھڑے کھڑے اسے سینے سے لگا لیا اور ایک لمبی کس دی۔۔۔۔ بہت سے لوگ دیکھ رہے تھے جو خاندان کے نہیں تھے بلکہ میرے لیے اجنبی تھے۔۔۔۔ حور نے مجھے منع نہیں کیا۔۔۔ ایک خاتون آگے آئیں اور مجھ سے کہنے لگیں کہ برخوردار یہاں اس قسم کے کام عوام میں نہیں ہوتے۔۔۔ اگر آپ نے چوما چاٹی کرنی ہے تو اندر چلے جائیں۔۔۔ یہاں ہماری بہو بیٹیاں ہیں وہ پسند نہیں کرتیں۔۔۔ ابھی وہ یہ بات کر ہی رہی تھیں کہ ایک انتہائی خوب صورت اور چنچل قسم کی لڑخی ہمارے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔۔۔۔ مجھ سے بولی: سر آپ سر احمد ہیں نا امریکہ سے آئے ہیں نا؟ میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ جی ہاں میں ہی ہوں۔کہنے لگی کہ آپ بہت خوش قسمت ہیں۔۔۔ ہمارے محلہ کی سب سے پیاری اور سب سے قیمتی لڑکی سے آپ کی شادی ہوئی ہے۔۔۔ میں نے شکریہ ادا کیااور کہا کہ ہاں واقعی میں خوش نصیب ہوں اور اس کا مجھے یقین ہے۔۔۔ کہنے لگی کہ میں زرعی یونی میں پڑھتی ہوں اور آپ کے لیکچر میں بھی تھی۔۔۔ کیا کمال کا لیکچر تھا آپ کا۔۔۔ مزید کہنے لگی کہ اگر میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہوں تو آپ منع تو نہیں کریں گے؟ میں نے کہا کہ نہیں لیکن اس وقت نہیں کیونکہ اس وقت شادی کی تقریب چل رہی ہے اور ابھی واجد بھائی کا نکاح ہے اور پھر بعد میں کبھی بھی ۔۔۔ اب تو میں آپ کے محلہ کا داماد ہوں تو کسی وقت بھی آپ مجھے تنگ کر سکتی ہیں۔۔۔ اس نے بھرپور مسکراہٹ دی اور آنکھ کا ایک کونا دبا کر کہنے لگی کہ کسی وقت بھی؟۔۔ میں نے بھی آنکھ کا کونا دبایا اور کہا کہ جی بالکل کسی وقت بھی۔۔۔۔ اتنا کہہ کر اس نے کہا کہ آپ اپنا ای میل یا کوئی کونٹیکٹ دے دیجیے میں آپ سے رابطہ کر لوں گی۔۔۔ میں نے کہا کہ اوکے اور جیب سے اپنا کارڈ نکال کر اسے دے دیا۔۔۔۔ وہ شکریہ ادا کر کے چلی گئی۔۔۔۔ مجھے لگا کہ وہ مجھ سے چدوائے گی۔۔۔ حور میرے ساتھ چمٹی ہوئی تھی بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ میں اس کے ساتھ چمٹا ہوا تھا۔۔۔ مجھے اس سے ایک سیکنڈ کے لیے الگ ہونا بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔۔۔۔ حور کسی کے متعلق کچھ کہنے لگی تو میں نے اسے کہا کہ پیاری بس اپنی اور میری بات کرو۔۔۔ فی الحال میں کسی کے متعلق نہ تو سوچنا چاہتا ہوں نہ ہی کسی اور کو تمہاری جگہ برداشت کر سکتا ہوں۔۔۔ حور نے میرے بازو پر بوسہ دیا۔۔۔ حور،میں اور واجد شاہانہ کے ساتھ صوفوں پر ساتھ ساتھ بیٹھ چکے تھے اس طرح کہ میں اور واجد سائڈز پر اور دونوں دلہنیں درمیان میں ہمارے ساتھ ساتھ۔۔۔ سبھی صدقے واری جا رہے تھے۔۔۔ وہ لڑکی جو مجھ سے کارڈ لے کر گئی تھی وہ سامنے موبائل میں ہماری تصاویر یا ویڈیو بنا رہی تھی۔۔۔۔اس کے چہرے پر ایک عجیب سے پراسراریت دکھائی دے رہی تھی اور اس کی مسکراہٹ ذومعنی لگ رہی تھی لیکن وہ بلا کی حسین تھی۔۔۔۔ اس کے بال لمبے گھنے اور سیاہ تھے۔۔۔ اس کی پلکیں بھی لمبی اور بھنویں عام لڑکیوںکی نسبت گھنی تھیں۔۔۔ اس کی جلد کا رنگ ایسا تھا کہ جیسے دودھ میں جامِ شیریں ملا دیا گیا ہو۔۔۔ میں اس میں کھو سا گیا تھا۔۔۔اب وہ فون پر کسی کو میسج کر رہی تھی۔۔۔ میں نے حور کے ہاتھ پر دباؤ بڑھا لیا تھا۔۔۔ میری حور کے چہرے پر بلا کا اطمنان تھا۔۔۔ اس نے مجھے تسخیر کر لیا تھا۔۔۔۔میں حقیقت میں اس کا ہو چکا تھا۔۔۔ لیکن باہر کی موجیں بھی مجھے اپنی طرف کھینچ رہی تھیں۔۔۔ ہم سب خوش تھے لیکن میں مطمئن تھا اور مجھ سے زیادہ مطمئن میری حور دکھائی دے رہی تھی۔۔۔ نکاح ہو گیا۔۔۔ مٹھائی کھلائی گئی۔۔۔۔ کھانا ہوا ۔۔۔ میرا دل کر رہا تھا کہ فوراً حور کو لے کر کمرے میں چلا جاؤں اور اسے سینے سے لگا کر خاموشی سے لیٹ جاؤں اور کوئی ہمیں ڈسٹرب نہ کرے۔۔۔۔لیکن کیا کریں کہ شادی کی رسمیں ادا ہو رہی تھیں۔۔۔ ملیحہ اور فریحہ بھی فیملی سمیت آ چکے تھے اور تینوں ماں بیٹیاں میرے اور حور کے اردو گرد گھوم رہی تھیں۔۔۔ کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ یہ تینوں مجھ سے چد چکی ہیں۔۔ شمائلہ بھائی بھائی کہتے نہ تھک رہی تھی اور فریحہ اور ملیحہ انکل انکل اور باجی باجی کہہ کر لپٹ رہی تھیں اور لوگ کتنا رشک کر رہے تھے۔۔۔ سب کو یہی بتایا گیا تھا کہ میں شمائلہ کا کزن ہوں اور یہ شادی شمائلہ اور ان کے میاں نے کروائی ہے۔۔۔ سب سے زیادہ تحائف انہی کی طرف سے آئے تھے۔۔۔ فرخندہ کے لیے قیمتی ہیروں کا ہار اور بہت قیمتی ملبوسات۔۔۔ میرے لیے بہت قیمتی ہیرےکی انگوٹھی اور ملبوسات نیز گھڑی۔۔۔ مجھے بہت عجیب لگ رہا تھا۔۔ ایک تنہا شخص کو سب رشتے مل گئے تھے۔۔۔ میں ان کی بہت قدر اپنے دل میں محسوس کر رہا تھا۔۔ جن حالات میں یہ تعلق بنا تھا وہ پس منظر میں جا چکے تھے۔۔۔ سب کی محبت بے لوث اور ازحد قیمتی ہو چکی تھی۔۔شمائلہ نے ٹھیک بتایا تھا کہ سیکس پارٹیز تو ہوتی ہیں لیکن ان کا تذکرہ بعد میں نہیں کیا جاتا اور سب ایک دوسرے کا احترام حد سے زیادہ کرتے ہیں اسی لیے تو یہ سیکس پارٹیاں سال ہا سال سے چل رہی تھیں اور کسی کو کسی سے کوئی اختلاف یا مسئلہ نہیں پیدا ہوا تھا۔۔۔ یہ عجیب طرح کی محبت تھی جو کہیں بھی جلن اور حسد پیدا نہیں ہونے دیتی تھی۔۔۔ حور میرے دلو دماغ اور روح پر قبضہ کر چکی تھی اور وہ میری ہو چکی تھی لیکن وہ پارٹی کے رولز کو بھی فالو کر رہی تھی اور اسے ذرا بھی حسد نہیں تھا اور نہ ہی کوئی فکر تھی کہ میں اسے چھوڑ کر کسی اور کا ہو جاؤں گا کیونکہ اس نے مجھے بتایا تھا کہ اگر ہم ایک دوسرے پر کوئی پابندی لگائیں تو خطرہ ہے کہ ایک دوسرے سے تنگ ہو کر الگ ہو جائیں اس لیے پارٹی میں یہ اصول رکھا گیا تھا کہ کوئی کسی پر کوسی قسم کی قدغن نہیں لگائے گا اور سب کو مکمل آزادی ہو گی اس لیے نہ کوئی کسی سے حسد کرے اور نہ ہی کسی کی تحقیر کرے۔۔۔ اور اس اصل پر سب خاندان قائم تھے اور اسی لیے سیکس پارٹی قائم تھی اور کامیابی سے جاری و ساری تھی۔۔۔ جب ہر پھدی اور ہر لوڑا آپس میں آزاد تھے کہ کوئی بھی کسی کے ساتھ وقت گزارے اور سب خوشی سے لگے رہیں تو کسی کو کیا حسد اور جلن ہو گی۔۔۔یہی سنہرا اصول تھا جس پر کامیابی کا دارومدار تھا۔۔۔۔۔

رات بھیگ چکی تھی۔۔۔ قریبی مہمان اور گلی محلہ والے اپنے اپنے گھروں کو جا رہے تھے۔۔۔تھوڑے لوگ رہ گئے تو وہ لڑکی اور اس کی وہی ماں جس نے مجھے اور حور کو سب کے سامنے کسنگ کرنے پر منع کیا تھا ہمارے پاس آئیں اور ایک لفافہ حور کو اور ایک شاہانہ کو دیا ساتھ کچھ پھول تھے اور رخصت چاہی۔۔۔ وہ لڑکی بولی کہ وہ جلد میسج کر کے اپنے سوالات بھیجے گی۔۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے اور پھر وہ بھی چلے گئے۔۔۔ اب صرف وہی مہمان بچے تھے جنہوں نے رات یہیں رکنا تھا۔۔۔ سب کو ان کے کمروں میں بھیج دیا گیا۔۔۔ میں واجد ، شاہانہ اور میری حور باقی بچے تھے۔۔۔ ملیحہ نے میری حور کو اٹھایا اور کہا کہ باجی چلیں آپ کے بیڈ روم میں۔۔۔ اور شاہانہ کو فریحہ نے اٹھایا اور بیڈ روم کی طرف لے چلی۔۔۔ دونوں بیڈ رومز ساتھ ساتھ تھے اور دونوں کے درمیان اٹیچ باتھ تھا اور دونوں کے دروازے اسی اٹیچ باتھ مین کھلتے تھے۔۔۔ شاہانہ کے امی ابو اورچھوٹے بہن بھائی اور ادھر فرخندہ کے امی ابو اور نائلہ سب موجود تھے۔۔۔ شمائلہ بار بار میری بلائین لے رہی تھی۔۔۔ میری آنکھوں میں آنسو تھے۔۔۔ کاش یہ میری سگی بہن ہوتی۔۔۔ کاش میرے اماں ابا زندہ ہوتے تو کتنا خوش ہوتے۔۔۔۔ملیحہ نے فرخندہ کوسنبھالا ہوا تھا۔۔۔ پتہ نہیں رات کا کیا پلان تھا۔۔۔ لیکن میرا دل تو یہی تھا کہ میں اور میری حور بس اور کوئی نہ ہو آج رات کمرے میں ۔۔۔ لیکن میں کسی اصول کے الٹ نہٰں چل سکتا تھا۔۔۔۔ اس لیے خاموش سے کمرے میں آ گیا۔۔۔۔ کمرے میں آ کر معلوم ہوا کہ آج کی رات ہم دونوں اکیلے گزاریں گے اور ہمارے ساتھ اور کوئی نہیں ہو گا۔۔۔ ہاں اگر ہم چاہیں تو واجد اور شاہانہ کے ساتھ مل کر رات گزار سکتے ہیں وہ بھی کوئ پابندی نہیں تھی۔۔۔ میں دل میں بہت خوش ہو گیا۔۔ ملیحہ اندر آتے ہیں مجھ سے لپٹ گئی کہ انکل آپ کی جوڑی بہت پیاری لگ رہی ہے۔۔۔ میں نے بھی اسے پیار کیا اور شکریہ ادا کیا۔۔۔ ابھی ہم الوداعی مل رہے تھے کہ فریحہ بھی آ گئی اور ملیحہ واجد کے کمرے میں چلی گئی۔۔۔ فریحہ نے مجھے پیار کیا اور کہا کہ انکل کل ملتے ہیں اور پھر فرخندہ سے گلے مل کے اجازت لے کر باہر چلی گئی۔۔ شمائلہ بھی ہم سے رخصت لے کر واجد کے کمرے میں گئی اور پھر واپس ہمارے پاس آئی اور کہنے لگی کہ شاہاننہ مجھے رکنے کا کہہ رہی ہے اس لیے میں آج رات شاہانہ کے ساتھ رہوں گی۔۔۔میں سمجھ گیا کہ واجد کا دل ہے آنٹی کی گانڈ مارنے کا۔۔۔ شمائلہ نے ہم دونوں کو کس کیا اور ملیحہ لوگوں کو رخصت کرنے باہر گئیں اور پھر واپس سیدھی واجد کے کمرے میں چلی گئیں۔۔۔ میں نے اندر سے کنڈی چڑھانا چاہی لیکن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کسی بھی دروازے کی اندر سے کوئی کنڈی یا لاک نہیں ہے۔۔۔ میں خاموش رہا۔۔۔۔ اور کوٹ اتار کر صوفے پر بھینک دیا اور اپنی حور کو ساتھ چمٹا لیا۔۔۔ حور کو چمٹائے چمٹائے کسنگ کرتے کرتے بیڈ تک لایا اور بغیر کپڑے اتارے بیڈ پر لیٹ گیا۔۔۔ میں نے اپنی حور کے منہ میں منہ ڈالا ہوا تھا اور بس سینے سے چمٹائے چمٹائے کسنگ کر رہا تھا۔۔۔ مجھے لگ رہا تھا کہ رات ساری کسنگ میں ہی گزر جائے گی اور ایسا ہی ہوا۔۔۔ کسنگ کرتے کرتے نہ جانے کب میں نیند کی آغوش میں چلا گیا۔۔۔۔ کیونکہ حور تو بہت دیر پہلے سو چکی تھی۔۔۔۔ وہ سوئی ہوئی ننھا سا فرشتہ لگ رہی تھی۔۔۔۔ رات کے کسی پہر مجھے لگا کہ کوئی میرا لوڑا چوس رہا ہے۔۔۔ میں نے مدھم سی روشنی میں دیکھا تو وہ شاہانہ تھی۔۔۔ میں نے اسے لگا رہنے دیا۔۔۔ حور تو بڑے سکون سے سوئی ہوئی تھی۔۔۔ جبکہ واجد کے کمرے سے شمائلہ کے چدنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔۔۔ شاہانہ ننگی ہی میرے پاس لیٹی تھی اور میرا لوڑا ننگا کر کے چوس رہی تھی۔۔۔تھوڑی دیر بعد شاہانہ میرے لوڑے کی سواری کر رہی تھی۔۔۔ میرا دل تو نہیں کر رہا تھا لیکن خاموش رہا۔۔۔ وہ اچھلتی رہی پھر مجھے بھی جو آ گیا اور میں نے اسے کتیا بنا کر چودنا شروع کر دیا۔۔۔ حور آرام سے سو رہی تھی۔۔۔ میں شاہانہ کو چود رہا تھا۔۔۔ تھوڑٰ دیر چوت می ں چودنے کے بعد میں نے اس کی گانڈ میں لوڑا ڈال دیا اور پھر جڑ تک اندر کر کے مزید زور لگایا اور اندر دھکیل کر وہیں رک گیا۔۔۔ اور مزید اندر کو زور لگانے لگا۔۔۔ میرا لوڑا مجھے اس کی گانڈ میں پھولتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔ اس کی گانڈ بہت مزے کی تھی۔۔ میں نے اس کو گانڈ مٰن لوڑا ڈالے ڈالے ہی اٹگا لیا اور اس کے کمرے میں لے گیاجہاں شمائلہ کی گانڈ واجد مار رہا تھا۔۔۔۔ دونوں کی گانڈ اب کھڑک رہی تھی۔۔۔ پھر شاہانہ نے واجد سے کہا کہ میں گانڈ میں دو لوڑے لینا چاہتی ہوں۔۔۔ یہ میرا خواب تھا کہ سہاگ رات کو دو لوڑے گانڈ میں لینے کی ٹرائی کروں گی۔۔۔ تو میں نے کہا کہ ٹھیک ہے واجد آ گیا۔۔۔ میں نیچے لیٹا ہوا اپنےلوڑے کو اس کی گانڈ میں ڈال کر واجد کے لوڑے کا انتظار کرنے لگا جو میرے لوڑے سے چھوٹا اور پتلا تھا۔۔۔ اچانک واجد نے اپنا لوڑا میرے لوڑے پر رکھ کر ایک دھکا مارا اور سارا لوڑا یک دم شاہانہ کی گانڈ میں گھسا دیا۔۔۔ جتنی مرجٰ گانڈو تھی لیکن ایسا لگا کہ شاہانہ کی گانڈ پھٹ چکی ہے اور اس کی چیخ نکلی جو میرے منہ میں چلی گئی کیونکہ ہم دونوں ایک دوسرے کی زبان چوس رہے تھے۔۔۔ میں نے اس کس کر پکڑاہوا تھا اور واجد سے کہا کہ زور لگا کر سارا گھسا دو۔۔۔ میرے ذہن میں آیا کہ آج شمائلہ بہن کی گانڈ میں بھی دونوں لوڑے گھسانے کا وقت آ گیا ہے چنانچہ کوئی آدھا گھنٹہ شہانہ کی گانڈ چودنے کے بعد شمائلہ کی گانڈ کا نظارہ کیا جبکہ شاہانہ اپنی پھٹی ہوئی گانڈ کو لے کر باتھ روم میں گھس چکی تھی۔۔۔ اس سے چلا نہیں جا رہا تھا۔۔۔۔ شمائلہ کی گانڈ میں دو لوڑے گھس کر دھپا دھپ کر رہے تھے۔۔۔ کوئی بیس منٹ کی زور دار چدائی کے بعد واجد ڈسچارج ہو گیا اور پھر میں اکیلا ہی شمائلہ کی پھدی میں لوڑا ڈال کر دھمال کرتا رہا اور کوئی پندرہ منٹ اسے مزید چودنے کے بعد اس کی گانڈ میں ڈسچارج ہو گیا اور تھوڑی دیر بعد ہی اپنے روم میں آ کر اپنی حور کے ساتھ لیٹ کر سو گیا۔

شام ہو چکی تھی۔۔ خوش بو ہر طرف پھیل رہی تھی۔۔۔ میں نے حور سے کہا کہ میرے ساتھ ساتھ رہنا۔۔۔ حور نے مجھے کس کر پکڑ لیا۔۔ میں نے اسے وہیں کھڑے کھڑے اسے سینے سے لگا لیا اور ایک لمبی کس دی۔۔۔۔ بہت سے لوگ دیکھ رہے تھے جو خاندان کے نہیں تھے بلکہ میرے لیے اجنبی تھے۔۔۔۔ حور نے مجھے منع نہیں کیا۔۔۔ ایک خاتون آگے آئیں اور مجھ سے کہنے لگیں کہ برخوردار یہاں اس قسم کے کام عوام میں نہیں ہوتے۔۔۔ اگر آپ نے چوما چاٹی کرنی ہے تو اندر چلے جائیں۔۔۔ یہاں ہماری بہو بیٹیاں ہیں وہ پسند نہیں کرتیں۔۔۔ ابھی وہ یہ بات کر ہی رہی تھیں کہ ایک انتہائی خوب صورت اور چنچل قسم کی لڑخی ہمارے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔۔۔۔ مجھ سے بولی: سر آپ سر احمد ہیں نا امریکہ سے آئے ہیں نا؟ میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ جی ہاں میں ہی ہوں۔کہنے لگی کہ آپ بہت خوش قسمت ہیں۔۔۔ ہمارے محلہ کی سب سے پیاری اور سب سے قیمتی لڑکی سے آپ کی شادی ہوئی ہے۔۔۔ میں نے شکریہ ادا کیااور کہا کہ ہاں واقعی میں خوش نصیب ہوں اور اس کا مجھے یقین ہے۔۔۔ کہنے لگی کہ میں زرعی یونی میں پڑھتی ہوں اور آپ کے لیکچر میں بھی تھی۔۔۔ کیا کمال کا لیکچر تھا آپ کا۔۔۔ مزید کہنے لگی کہ اگر میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہوں تو آپ منع تو نہیں کریں گے؟ میں نے کہا کہ نہیں لیکن اس وقت نہیں کیونکہ اس وقت شادی کی تقریب چل رہی ہے اور ابھی واجد بھائی کا نکاح ہے اور پھر بعد میں کبھی بھی ۔۔۔ اب تو میں آپ کے محلہ کا داماد ہوں تو کسی وقت بھی آپ مجھے تنگ کر سکتی ہیں۔۔۔ اس نے بھرپور مسکراہٹ دی اور آنکھ کا ایک کونا دبا کر کہنے لگی کہ کسی وقت بھی؟۔۔ میں نے بھی آنکھ کا کونا دبایا اور کہا کہ جی بالکل کسی وقت بھی۔۔۔۔ اتنا کہہ کر اس نے کہا کہ آپ اپنا ای میل یا کوئی کونٹیکٹ دے دیجیے میں آپ سے رابطہ کر لوں گی۔۔۔ میں نے کہا کہ اوکے اور جیب سے اپنا کارڈ نکال کر اسے دے دیا۔۔۔۔ وہ شکریہ ادا کر کے چلی گئی۔۔۔۔ مجھے لگا کہ وہ مجھ سے چدوائے گی۔۔۔ حور میرے ساتھ چمٹی ہوئی تھی بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ میں اس کے ساتھ چمٹا ہوا تھا۔۔۔ مجھے اس سے ایک سیکنڈ کے لیے الگ ہونا بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔۔۔۔ حور کسی کے متعلق کچھ کہنے لگی تو میں نے اسے کہا کہ پیاری بس اپنی اور میری بات کرو۔۔۔ فی الحال میں کسی کے متعلق نہ تو سوچنا چاہتا ہوں نہ ہی کسی اور کو تمہاری جگہ برداشت کر سکتا ہوں۔۔۔ حور نے میرے بازو پر بوسہ دیا۔۔۔ حور،میں اور واجد شاہانہ کے ساتھ صوفوں پر ساتھ ساتھ بیٹھ چکے تھے اس طرح کہ میں اور واجد سائڈز پر اور دونوں دلہنیں درمیان میں ہمارے ساتھ ساتھ۔۔۔ سبھی صدقے واری جا رہے تھے۔۔۔ وہ لڑکی جو مجھ سے کارڈ لے کر گئی تھی وہ سامنے موبائل میں ہماری تصاویر یا ویڈیو بنا رہی تھی۔۔۔۔اس کے چہرے پر ایک عجیب سے پراسراریت دکھائی دے رہی تھی اور اس کی مسکراہٹ ذومعنی لگ رہی تھی لیکن وہ بلا کی حسین تھی۔۔۔۔ اس کے بال لمبے گھنے اور سیاہ تھے۔۔۔ اس کی پلکیں بھی لمبی اور بھنویں عام لڑکیوںکی نسبت گھنی تھیں۔۔۔ اس کی جلد کا رنگ ایسا تھا کہ جیسے دودھ میں جامِ شیریں ملا دیا گیا ہو۔۔۔ میں اس میں کھو سا گیا تھا۔۔۔اب وہ فون پر کسی کو میسج کر رہی تھی۔۔۔ میں نے حور کے ہاتھ پر دباؤ بڑھا لیا تھا۔۔۔ میری حور کے چہرے پر بلا کا اطمنان تھا۔۔۔ اس نے مجھے تسخیر کر لیا تھا۔۔۔۔میں حقیقت میں اس کا ہو چکا تھا۔۔۔ لیکن باہر کی موجیں بھی مجھے اپنی طرف کھینچ رہی تھیں۔۔۔ ہم سب خوش تھے لیکن میں مطمئن تھا اور مجھ سے زیادہ مطمئن میری حور دکھائی دے رہی تھی۔۔۔ نکاح ہو گیا۔۔۔ مٹھائی کھلائی گئی۔۔۔۔ کھانا ہوا ۔۔۔ میرا دل کر رہا تھا کہ فوراً حور کو لے کر کمرے میں چلا جاؤں اور اسے سینے سے لگا کر خاموشی سے لیٹ جاؤں اور کوئی ہمیں ڈسٹرب نہ کرے۔۔۔۔لیکن کیا کریں کہ شادی کی رسمیں ادا ہو رہی تھیں۔۔۔ ملیحہ اور فریحہ بھی فیملی سمیت آ چکے تھے اور تینوں ماں بیٹیاں میرے اور حور کے اردو گرد گھوم رہی تھیں۔۔۔ کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ یہ تینوں مجھ سے چد چکی ہیں۔۔ شمائلہ بھائی بھائی کہتے نہ تھک رہی تھی اور فریحہ اور ملیحہ انکل انکل اور باجی باجی کہہ کر لپٹ رہی تھیں اور لوگ کتنا رشک کر رہے تھے۔۔۔ سب کو یہی بتایا گیا تھا کہ میں شمائلہ کا کزن ہوں اور یہ شادی شمائلہ اور ان کے میاں نے کروائی ہے۔۔۔ سب سے زیادہ تحائف انہی کی طرف سے آئے تھے۔۔۔ فرخندہ کے لیے قیمتی ہیروں کا ہار اور بہت قیمتی ملبوسات۔۔۔ میرے لیے بہت قیمتی ہیرےکی انگوٹھی اور ملبوسات نیز گھڑی۔۔۔ مجھے بہت عجیب لگ رہا تھا۔۔ ایک تنہا شخص کو سب رشتے مل گئے تھے۔۔۔ میں ان کی بہت قدر اپنے دل میں محسوس کر رہا تھا۔۔ جن حالات میں یہ تعلق بنا تھا وہ پس منظر میں جا چکے تھے۔۔۔ سب کی محبت بے لوث اور ازحد قیمتی ہو چکی تھی۔۔شمائلہ نے ٹھیک بتایا تھا کہ سیکس پارٹیز تو ہوتی ہیں لیکن ان کا تذکرہ بعد میں نہیں کیا جاتا اور سب ایک دوسرے کا احترام حد سے زیادہ کرتے ہیں اسی لیے تو یہ سیکس پارٹیاں سال ہا سال سے چل رہی تھیں اور کسی کو کسی سے کوئی اختلاف یا مسئلہ نہیں پیدا ہوا تھا۔۔۔ یہ عجیب طرح کی محبت تھی جو کہیں بھی جلن اور حسد پیدا نہیں ہونے دیتی تھی۔۔۔ حور میرے دلو دماغ اور روح پر قبضہ کر چکی تھی اور وہ میری ہو چکی تھی لیکن وہ پارٹی کے رولز کو بھی فالو کر رہی تھی اور اسے ذرا بھی حسد نہیں تھا اور نہ ہی کوئی فکر تھی کہ میں اسے چھوڑ کر کسی اور کا ہو جاؤں گا کیونکہ اس نے مجھے بتایا تھا کہ اگر ہم ایک دوسرے پر کوئی پابندی لگائیں تو خطرہ ہے کہ ایک دوسرے سے تنگ ہو کر الگ ہو جائیں اس لیے پارٹی میں یہ اصول رکھا گیا تھا کہ کوئی کسی پر کوسی قسم کی قدغن نہیں لگائے گا اور سب کو مکمل آزادی ہو گی اس لیے نہ کوئی کسی سے حسد کرے اور نہ ہی کسی کی تحقیر کرے۔۔۔ اور اس اصل پر سب خاندان قائم تھے اور اسی لیے سیکس پارٹی قائم تھی اور کامیابی سے جاری و ساری تھی۔۔۔ جب ہر پھدی اور ہر لوڑا آپس میں آزاد تھے کہ کوئی بھی کسی کے ساتھ وقت گزارے اور سب خوشی سے لگے رہیں تو کسی کو کیا حسد اور جلن ہو گی۔۔۔یہی سنہرا اصول تھا جس پر کامیابی کا دارومدار تھا۔۔۔۔۔

رات بھیگ چکی تھی۔۔۔ قریبی مہمان اور گلی محلہ والے اپنے اپنے گھروں کو جا رہے تھے۔۔۔تھوڑے لوگ رہ گئے تو وہ لڑکی اور اس کی وہی ماں جس نے مجھے اور حور کو سب کے سامنے کسنگ کرنے پر منع کیا تھا ہمارے پاس آئیں اور ایک لفافہ حور کو اور ایک شاہانہ کو دیا ساتھ کچھ پھول تھے اور رخصت چاہی۔۔۔ وہ لڑکی بولی کہ وہ جلد میسج کر کے اپنے سوالات بھیجے گی۔۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے اور پھر وہ بھی چلے گئے۔۔۔ اب صرف وہی مہمان بچے تھے جنہوں نے رات یہیں رکنا تھا۔۔۔ سب کو ان کے کمروں میں بھیج دیا گیا۔۔۔ میں واجد ، شاہانہ اور میری حور باقی بچے تھے۔۔۔ ملیحہ نے میری حور کو اٹھایا اور کہا کہ باجی چلیں آپ کے بیڈ روم میں۔۔۔ اور شاہانہ کو فریحہ نے اٹھایا اور بیڈ روم کی طرف لے چلی۔۔۔ دونوں بیڈ رومز ساتھ ساتھ تھے اور دونوں کے درمیان اٹیچ باتھ تھا اور دونوں کے دروازے اسی اٹیچ باتھ مین کھلتے تھے۔۔۔ شاہانہ کے امی ابو اورچھوٹے بہن بھائی اور ادھر فرخندہ کے امی ابو اور نائلہ سب موجود تھے۔۔۔ شمائلہ بار بار میری بلائین لے رہی تھی۔۔۔ میری آنکھوں میں آنسو تھے۔۔۔ کاش یہ میری سگی بہن ہوتی۔۔۔ کاش میرے اماں ابا زندہ ہوتے تو کتنا خوش ہوتے۔۔۔۔ملیحہ نے فرخندہ کوسنبھالا ہوا تھا۔۔۔ پتہ نہیں رات کا کیا پلان تھا۔۔۔ لیکن میرا دل تو یہی تھا کہ میں اور میری حور بس اور کوئی نہ ہو آج رات کمرے میں ۔۔۔ لیکن میں کسی اصول کے الٹ نہیں چل سکتا تھا۔۔۔۔ اس لیے خاموشی سے کمرے میں آ گیا۔۔۔۔ کمرے میں آ کر معلوم ہوا کہ آج کی رات ہم دونوں اکیلے گزاریں گے اور ہمارے ساتھ اور کوئی نہیں ہو گا۔۔۔ ہاں اگر ہم چاہیں تو واجد اور شاہانہ کے ساتھ مل کر رات گزار سکتے ہیں وہ بھی کوئ پابندی نہیں تھی۔۔۔ میں دل میں بہت خوش ہو گیا۔۔ ملیحہ اندر آتے ہیں مجھ سے لپٹ گئی کہ انکل آپ کی جوڑی بہت پیاری لگ رہی ہے۔۔۔ میں نے بھی اسے پیار کیا اور شکریہ ادا کیا۔۔۔ ابھی ہم الوداعی مل رہے تھے کہ فریحہ بھی آ گئی اور ملیحہ واجد کے کمرے میں چلی گئی۔۔۔ فریحہ نے مجھے پیار کیا اور کہا کہ انکل کل ملتے ہیں اور پھر فرخندہ سے گلے مل کے اجازت لے کر باہر چلی گئی۔۔ شمائلہ بھی ہم سے رخصت لے کر واجد کے کمرے میں گئی اور پھر واپس ہمارے پاس آئی اور کہنے لگی کہ شاہاننہ مجھے رکنے کا کہہ رہی ہے اس لیے میں آج رات شاہانہ کے ساتھ رہوں گی۔۔۔میں سمجھ گیا کہ واجد کا دل ہے آنٹی کی گانڈ مارنے کا۔۔۔ شمائلہ نے ہم دونوں کو کس کیا اور ملیحہ لوگوں کو رخصت کرنے باہر گئیں اور پھر واپس سیدھی واجد کے کمرے میں چلی گئیں۔۔۔ میں نے اندر سے کنڈی چڑھانا چاہی لیکن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کسی بھی دروازے کی اندر سے کوئی کنڈی یا لاک نہیں ہے۔۔۔ میں خاموش رہا۔۔۔۔ اور کوٹ اتار کر صوفے پر بھینک دیا اور اپنی حور کو ساتھ چمٹا لیا۔۔۔ حور کو چمٹائے چمٹائے کسنگ کرتے کرتے بیڈ تک لایا اور بغیر کپڑے اتارے بیڈ پر لیٹ گیا۔۔۔ میں نے اپنی حور کے منہ میں منہ ڈالا ہوا تھا اور بس سینے سے چمٹائے چمٹائے کسنگ کر رہا تھا۔۔۔ مجھے لگ رہا تھا کہ رات ساری کسنگ میں ہی گزر جائے گی اور ایسا ہی ہوا۔۔۔ کسنگ کرتے کرتے نہ جانے کب میں نیند کی آغوش میں چلا گیا۔۔۔۔ کیونکہ حور تو بہت دیر پہلے سو چکی تھی۔۔۔۔ وہ سوئی ہوئی ننھا سا فرشتہ لگ رہی تھی۔۔۔۔ رات کے کسی پہر مجھے لگا کہ کوئی میرا لوڑا چوس رہا ہے۔۔۔ میں نے مدھم سی روشنی میں دیکھا تو وہ شاہانہ تھی۔۔۔ میں نے اسے لگا رہنے دیا۔۔۔ حور تو بڑے سکون سے سوئی ہوئی تھی۔۔۔ جبکہ واجد کے کمرے سے شمائلہ کے چدنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔۔۔ شاہانہ ننگی ہی میرے پاس لیٹی تھی اور میرا لوڑا ننگا کر کے چوس رہی تھی۔۔۔تھوڑی دیر بعد شاہانہ میرے لوڑے کی سواری کر رہی تھی۔۔۔ میرا دل تو نہیں کر رہا تھا لیکن خاموش رہا۔۔۔ وہ اچھلتی رہی پھر مجھے بھی جو آ گیا اور میں نے اسے کتیا بنا کر چودنا شروع کر دیا۔۔۔ حور آرام سے سو رہی تھی۔۔۔ میں شاہانہ کو چود رہا تھا۔۔۔ تھوڑٰ دیر چوت می ں چودنے کے بعد میں نے اس کی گانڈ میں لوڑا ڈال دیا اور پھر جڑ تک اندر کر کے مزید زور لگایا اور اندر دھکیل کر وہیں رک گیا۔۔۔ اور مزید اندر کو زور لگانے لگا۔۔۔ میرا لوڑا مجھے اس کی گانڈ میں پھولتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔ اس کی گانڈ بہت مزے کی تھی۔۔ میں نے اس کو گانڈ مٰن لوڑا ڈالے ڈالے ہی اٹگا لیا اور اس کے کمرے میں لے گیاجہاں شمائلہ کی گانڈ واجد مار رہا تھا۔۔۔۔ دونوں کی گانڈ اب کھڑک رہی تھی۔۔۔ پھر شاہانہ نے واجد سے کہا کہ میں گانڈ میں دو لوڑے لینا چاہتی ہوں۔۔۔ یہ میرا خواب تھا کہ سہاگ رات کو دو لوڑے گانڈ میں لینے کی ٹرائی کروں گی۔۔۔ تو میں نے کہا کہ ٹھیک ہے واجد آ گیا۔۔۔ میں نیچے لیٹا ہوا اپنےلوڑے کو اس کی گانڈ میں ڈال کر واجد کے لوڑے کا انتظار کرنے لگا جو میرے لوڑے سے چھوٹا اور پتلا تھا۔۔۔ اچانک واجد نے اپنا لوڑا میرے لوڑے پر رکھ کر ایک دھکا مارا اور سارا لوڑا یک دم شاہانہ کی گانڈ میں گھسا دیا۔۔۔ جتنی مرجٰ گانڈو تھی لیکن ایسا لگا کہ شاہانہ کی گانڈ پھٹ چکی ہے اور اس کی چیخ نکلی جو میرے منہ میں چلی گئی کیونکہ ہم دونوں ایک دوسرے کی زبان چوس رہے تھے۔۔۔ میں نے اس کس کر پکڑاہوا تھا اور واجد سے کہا کہ زور لگا کر سارا گھسا دو۔۔۔ میرے ذہن میں آیا کہ آج شمائلہ بہن کی گانڈ میں بھی دونوں لوڑے گھسانے کا وقت آ گیا ہے چنانچہ کوئی آدھا گھنٹہ شاہانہ کی گانڈ چودنے کے بعد شمائلہ کی گانڈ کا نظارہ کیا جبکہ شاہانہ اپنی پھٹی ہوئی گانڈ کو لے کر باتھ روم میں گھس چکی تھی۔۔۔ اس سے چلا نہیں جا رہا تھا۔۔۔۔ شمائلہ کی گانڈ میں دو لوڑے گھس کر دھپا دھپ کر رہے تھے۔۔۔ کوئی بیس منٹ کی زور دار چدائی کے بعد واجد ڈسچارج ہو گیا اور پھر میں اکیلا ہی شمائلہ کی پھدی میں لوڑا ڈال کر دھمال کرتا رہا اور کوئی پندرہ منٹ اسے مزید چودنے کے بعد اس کی گانڈ میں ڈسچارج ہو گیا اور تھوڑی دیر بعد ہی اپنے روم میں آ کر اپنی حور کے ساتھ لیٹ کر سو گیا۔۔۔۔ جاری ہے

کافی کی خوش بو اور گرم گرم ہونٹوں نے مجھے جگا دیا۔۔۔ باہر سے لوگوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔۔ ہونٹ میری حور کے نہیں بلکہ نائلہ کے تھے۔۔۔ حور موجود نہیں تھی۔۔۔ نائلہ کسنگ کر رہی تھی۔۔ میں نے بھی اس کو اھا رسپانس دیا۔۔۔ نائلہ بولی کہ بہنوئی صاحب اٹھیے اور کافی پی لیجیے۔ نائلہ بولی کہ آپ کے ساتھ کسنگ کا بھی بہت مزہ آتا ہے میں نے کہا کہ مجھے بھی تمہارے ساتھ کسنگ کا بہت مزہ آتا ہے اور تم تو ہو ہی سپیشل۔۔۔۔ مری سالی ہو اور مجھے سب سے پہلے مزہ کروانے والی۔۔۔ کیا اپنے لیے کوئی ڈھونڈا ہے؟ کہنے لگی کہ نہیں آپ جیسا کوئی چاہیے۔۔۔ اگر فرخندہ نے آپ کو خواب میں نہ دیکھا ہوتا تو میں آپ کے لیے اپنی پسند کا اظہار امی ابو کے ساتھ کر چکی تھی۔۔۔ لیکن جب میری پیاری فرخندہ نے بتایا کہ یہی وہ انسان ہے جسے وہ کئی بار خوا ب میں دیکھ چکی ہے اور شادی کر چکی ہے تو میں نے اپنے دل کی بات دل میں ہی رہنے دی۔۔۔اور امی ابو سے بھی کہا کہ اب یہ بات فرخندہ کو پتہ نہ چلے۔۔ ویسے بھی ہم سب اکٹھے ہیں اور پیار تو میں آپ سے کبھی بھی کر سکتی ہوں۔۔۔۔ اس لیے مجھے کوئی مسئلہ نہیں لیکن میں اپنی بہن کو مطمئن دیکھ کر بہت خوش ہوں۔۔۔ میں نے کہا کہ اگر کوئی میرے جیسا نہ ملا تو؟۔۔۔ بولی کہ پھر میں شادی نہیں کروں گی بس ایک آدھ بچہ پیدا کر لوں گی آپ سے اور بس۔۔۔ میں نے کہا ٹھیک ہے تم میری آدھی گھر والی تو ہو ہی۔۔۔۔نائلہ کے ممے بہت خوب صورت تھے۔۔۔ میں انہیں دیکھ رہا تھا اور انہیں چوسنا چاہتا تھا۔۔۔اور اس دن پارٹی میں سب سے پہلے میں نے نائلہ کی ہی گانڈ میں ڈالا تھا۔۔۔ اور مجھے اندازہ تو اسی وقت ہو گیا تھا کہ وہ مجھے پسند کرتی ہے اور اگر فرخندہ زندگی میں نہ آئی ہوتی تو میں اس پارٹی میں موجود کسی بھی لڑکی سے نہ تو شادی کرتا یا ہو سکتا ہے کہ نہ ہی دوبارہ کسی سے ملتا۔

میں بولا کافی میں اگر تازہ دودھ مل جاتا تو کیا ہی کہنے۔۔۔ نائلہ نے جھٹ منہ سے منہ نکالااور اپنا مما ننگا کر کے میرے منہ میں ڈال دیا۔۔۔ میں نے دونوں ممے باری باری چوسنا شروع کر دیئے اور تھوڑی دیر کے بعد پھر اس کے منہ پر آ گیا۔۔۔ اور اس نے اپنے ممے اپنی شرٹ کے اندر کر لیے۔میں نے نائلہ سے بہت کسنگ کی اور ساتھ ساتھ کافی کا ایک ایک گھونٹ بھی لیتا رہا ۔۔ میر سالی نائلہ میں بھی ایک عجیب نشہ تھا۔ میں نے اسے کہا کہ ایک رات میں نے صرف اکیلے میں تمہارے ساتھ گزارنی ہے تو نائلہ کہنے لگی کہ کیوں نہیں۔۔ اب تو بہت سی راتیں میرے ساتھ گزار سکتے ہیں۔۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے لیکن ایک رات بالکل اکیلے صرف میں اور تم ۔۔۔ کہنے لگی کہ ٹھیک ہے لیکن اب آ جائیں اور تیار ہو جائیں کیونکہ ولیمہ ہے۔۔۔ میں نے نے دیکھا کہ کافی ختم ہو چکی تھی۔۔۔ میں اٹھا اور باتھ روم میں گھس گیا۔۔ میں نہایااور سوچ رہا تھا کہ کپڑے کون سے پہننے ہیں؟ ۔۔ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ حور کی آواز آئی۔۔۔ سنیں آپ کے لیے ڈریس وارڈ روب میں لٹکا دیا ہے باہر آ کر وہی پہنیے گا۔۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے لیکن ایک منٹ کے لیے اندر تو آؤ میری جان!۔۔۔ آواز آئی کہ ابھی تیاری کر رہی ہوں کپڑے پہن کے آئیں ملتے ہیں اور حور اندر نہیں آئی۔۔۔ میں نہایا۔۔ باہر آیا۔۔ وارڈ روب میں دیکھا تو ایک قیمتی سوٹ لٹکا ہوا تھا۔۔۔ میں نے کبھی ٹائی نہیں لگائی تھی لیکن آج مجھے سوٹ پہننے کو دیا گیا جس میں ٹائی بھی تھی۔۔۔ میں نے کپڑے پہنے۔۔۔ سارے سوٹ میں سے میری پسند کی خوش بو آ رہی تھی۔۔۔ لیکن میں نے توکسی کو نہیں بتایا تا کہ مجھے کون سا پرفیوم پسند ہے۔۔ یہ کہاں سے آیا؟ خیر اب مجھے حیرت کم ہو رہی تھی کیونکہ میں جان چکا تھا کہ میری حور کو سب معلوم ہو جاتا ہے۔۔۔۔ جیسے ہی میں نے سوٹ پہنا تو ھور اندر آئی ار میں دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس نے بھی اسی رنگ کا بہترین شرارہ سیٹ پہنا ہوا تھا۔۔۔ میں نے حور کو پکڑ کر سینے سےلگا لیا۔۔۔اور آئنے کے سامنے کھڑے ہو کر دیکھنے لگاتو ایسا لگ رہا تھا کہ دونوں نے ایک جیسے کپڑے پہنے ہوئے اور کتنے خوب صورت لگ رہے تھے۔۔ مجھے آج ٹائی لگانا اچھا لگ رہا تھا۔۔۔ میری ٹائی کی ناٹ میری حور نے کسی اور میں نے اس کے ہاتھ پر ایک بوسہ دیا۔۔۔ ہم دونوں بازو میں بازو ڈالے باہر نکلے۔۔۔ تو دیکھ کر اور بھی حیران رہ گا کہ واجد اور شاہانہ نے بھی اسی طرھ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔۔۔ ہم چاروں نے ایک ہی رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔۔۔ میں بہت خو ش ہوا کہ کیسے میری ذرا ذرا سی پسند کا خیال رکھا جا رہا ہے۔۔۔ ڈارک براؤن میرا لکی رنگ تھے اور اسی رنگ کے کپڑے تھے اور میری پسندیدہ خوش بو ہم چاروں میں سے آ رہی تھی۔۔۔ لوگ دیکھ رہے تھے اور کھل رہے تھے۔۔۔ کسی کے چہرے پر جلن یا حسد کے آثار دکھائی نہٰں دے رہے تھے۔۔۔ سبھی چہرے دمک رہے تھے اور خوشی سے چمک رہے تھے۔۔۔ ولیمہ کے کھانا شام کو تھا اور اب پانچ بج چکے تھے۔۔۔ساڑھے چھ بجے کھانا تھا اور پھر رات کی پارٹی تھی۔۔۔ مجھے تھامے تھامے حور صوفوں کی طرف بڑھی۔۔ ہم بیٹھے۔۔۔ شمائلہ، فریحہ اور ملیحہ بھی اپنی فیملی کے ساتھ آ چکے تھے۔۔۔ سب ہمارے ارد گرد آ گئے۔۔۔ ملیحہ اور فریحہ نے مجھے دونوں طرف سے ہگ کیا ۔۔۔ ہم بیٹھے۔۔۔ کھانا کھلا سب نے کھانا کھایا۔۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ کل والی لڑکی نظر نہیں آئی۔۔۔ لیکن میں نے اسے ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کیا کیونکہ مجھے تسلی تھی کہ اگر اس کا ارادہ مجھ سے چدوانے کا ہے تو اس نے اچھا کیا کہ نہیں آئی۔۔۔ اور میرا نمبر تو ا س کے پاس ہے ہی۔۔۔۔۔ولیمہ ختم ہوا ۔۔سب اپنے اپنے گھر کو چل دیئے۔۔۔ آج کی پارٹی اسی گھر میں تھی۔۔۔ پارٹی کے ممبر سب خاندانوں نے آج ادھر ہی رکنا تھا۔۔۔ میرا دل نہیں کر رہا تھا پارٹی کو۔۔۔ مجھے اور واجد کو ایک خاص مشروب دیا گیا کہ اس کے تین کپ پارٹی شروع ہونے سے پہلے پہلے پینے ہیں۔ ۔۔ میں نے ایک پی لیا تو بتایا گیا کہ دوسرا آدھے گھنٹے بعد اور تیسرا پارٹی شروع ہونے سے پانچ منٹ پہلے پلایا جائے گا۔۔۔۔آدھے گھنٹے بعد دوسرا گلاس میں نے پی لیا۔۔۔ واجد کو بھی پلایا گیا۔۔ پھر رات دس بجے تیسرا گلاس دیا گیا جس مطلب تھا کہ چدائی پارٹی شروع لگی ہے کیونکہ کھانا تو سب کھا چکے تھے۔۔۔

آج کی پارٹی حور کے گھر میں تھی۔۔۔ شادی کی خوشی میں رکھی جانے والی اس پارٹی میں کچھ خاص ہونے جا رہا تھا۔۔۔ اس پارٹی میں یونی ورسٹی کی کچھ سٹوڈنٹس بھی انوائٹ کی گئی تھیں۔۔۔ آٹھ سے دس نئے چہرے اور نئی ویٹریسز بھی موجود تھیں۔۔ سب خاندان اکٹھے تھے۔۔۔ مشروب دیا گیا۔۔۔ جو مہمان صرف پارٹی کے لیے آئے تھے انہیں کھانا دیا گیا۔۔۔ کھانا اور وائن اور شیمپین بھی رکھی گئی تھی۔۔۔ میں حیران تھا کہ یونی کی لڑکیاں شیمپین پی رہی تھیں اور کھل کر گلاس پر گلاس چڑھا رہی تھیں۔۔۔ اکثر لڑکیاں مجھے لیکچر کے حوالے سے جانتی تھیں اس لیے میرے ارد گرد کافی ہجوم تھا۔۔ ویسے تو سبھی لڑکیاں ایک سے بڑھ کر ایک تھیں۔۔۔۔ لیکن دو لڑکیاں مجھے میرے مطلب کی لگیں انتہائی خوب صورت اور سانولی تھیں اور میری پسندیدہ جسامت، ایک کے ممے ذرا چھوٹے تھے اور ایک کے بہت بڑے بڑے لیکن کمر دونوں کی برابر اور چوتڑوں پر گوشت بھی زیادہ ابھرا ہوا نہ تھا۔۔ مجھے ایسی جسامت ہی پسند تھی۔۔۔ ایک کا قد میرے برابر تھا جو نسبتاً کھلتی ہوئی سانولی لڑکی تھی اور اس کے ممے چھوٹے لگ رہے تھے لیکن دوسری کا رنگ بہت ہی مسحور کن سانولا تھا اور قد چھوٹا تھا جو میرا آئیڈیل تھا اور اس کے ممے تنے ہوئے اور بڑے بڑے تھے جو مجھے دعوت دے رہے تھے۔۔۔ ہلکا ہلکا میک اپ کرنے سے ان کی رنگت میں آگ لگی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ کھانا ہوا۔۔ ساتھ ساتھ پیگ چل رہے تھے۔۔۔ مردوں کو مشروب دیا جا رہا تھا۔۔۔ ایک ویٹریس میرے زیادہ ہی قریب ہو کرانگریزی میں بولی۔۔۔ آپ بہت ہاٹ لگ رہے ہیں آج رات آپ کی خیر نہیں ہے ۔۔ یونی کی سب لڑکیاں آپ پر گرم ہیں۔۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ کوئی بات نہیں مجھے اس کا بہت تجربہ ہے۔۔۔ مجھے تو تم پر بھی گرمی آ رہی ہے۔۔۔ کہنے لگی کہ ٹھہریں میں آپ کو ایک خاص مشروب پلاتی ہوں جس کے پینے کے بعد آپ محسوس کریں گے کہ آپ کو کوئی پھدی یا گانڈ شکست نہیں دے سکتی۔۔۔ آپ سب کو چود ڈالیں گے پھر بھی آپ کا لوڑا کھڑا رہے گا۔۔۔ یہ میں اپنے خاص کلائنٹس کو پلاتی ہوں لیکن اس شرط پر کہ وہ ایک رات بعد میں میرے اور میرے بوائے فرینڈ کے ساتھ گزاریں۔۔۔میں نے کہا کہ منظور ہے۔۔ جب کہو گی میں تمہارے ساتھ اور تمہارے بوائے فرینڈ کے ساتھ رات گزارنے کو تیار ہوں۔۔۔ تھوڑی دیر میں وہ سب کو مشروب دینے لگی۔۔۔ میرے پاس آئی تو اس نے مجھے اشارہ کیا کہ یہ اورنج رنگ مشروب والا گلاس اٹھا کر کم از کم تین گھونٹ میں پی لیں۔۔ میں نے شکریہ کر کے اٹھا لیا۔۔۔ اتنے میں چھوٹے قد والی میری پسندیدہ لڑخی میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ سر میں آپ کی فین ہوں۔۔۔ میں نے کہا شکریہ۔۔۔ کہنے لگی کہ آج پتہ لگے گا کہ آپ کی اصل انرجی کیا ہے۔۔۔ میں نے کہا کہ میری بھی سب سے زیادہ آپ پر نظر ہے۔۔۔ آپ کب سے اس قسم کی پارٹی میں جاتی ہیں۔۔ کہنے لگی کہ جو پے منٹ کر دے وہاں جاتی ہوں اور سب کی منظورِنظر ہوں۔۔۔ آپ دیکھیے گا کہ سب سے زیادہ لوگ مجھے ہی چودیں گے لیکن میں سب سے زیادہ آپ سے چدوانا پسند کروں گی۔۔۔ میں نے کہا کہ میں بھی آج سب سے زیادہ تمہیں ہی چودنے والا ہوں۔۔۔ اتنے میں وہ دوسری لڑکی میری طرف دیکھ رہی تھی میں نے اسے اشارہ کیا۔۔ وہ میرے پاس آئی اور میں نے اسے سینے سے لگا کر اس کے کان میں کہا کہ بہت ہاٹ لگ رہی ہو۔۔۔وہ کہنے لگی کہ آپ بھی کم نہیں لگ رہے اس لیے آج آپ کی خیر نہیں یونی کی ساری لڑکیاں آپ پر نظریں جمائی بیٹھی ہیں کیونکہ باقیوں کے لوڑے تو ہم سب نے چکھ رکھے ہیں۔ ۔۔

لائیٹس مدھم ہو گئیں۔۔ کپڑۓ اتر رہے تھے۔۔۔ منہ میں منہ تھے۔۔ زبانیں چوسی جا رہی تھیں۔۔۔ ممے ننگے ہو کر داد وصول کر رہے تھے۔۔۔ لوڑے بھی کھڑے تھے اور ننگے جھول رہے تھے۔۔ کئی ایک لوڑے نازک منہ اپنی آغوش مٰں لے چکے تھے۔۔ ملیحہ اور وہ چھوٹے قد کی یونی والی لڑکی لبنیٰ میرے ساتھ چمٹی ہوئی تھیں۔۔ حور کہیں نظر نہ آ رہی تھی۔۔ میرے تو عجیب نظارے تھے۔۔ لوڑا پہلے سے کہیں زیادہ موٹا اور لمبا لگ رہا تھا اور اس طرح تنا ہوا تھا کہ اب کبھی بیٹھے گا ہی نہیں۔۔۔لبنیٰ نے میرے منہ میں منہ ڈالا اور ملیحہ نے میرا لوڑا اپنے منہ میں ڈال لیا تھا۔۔ لبنیٰ کہہ رہی تھی کہ آپ کا لوڑا واقعی تگڑا ہے آج میری گانڈ کی خیر نہیں لگ رہی۔۔ اتنا کہہ کر اس نے ملیحہ سے میرے لوڑے کا چارج لیااور اسے منہ میں ڈال لیا اور ملیحہ کا منہ اپنی پھدی پر ٹکا دیا۔۔۔ میں نے غور کیا تو دیکھا کہ اس کی گانڈ میں ایک سلور رنگ کا ڈلڈو فٹ تھا۔۔۔ ملیحہ اس کی پھدیا پر منہ مارتی اور اس کی گانڈ میں موجود ڈلڈو پلگ کو بھی ساتھ ساتھ گھما رہی تھی۔۔۔ اتنے میں لبنیٰ کی پھدیا سے ایک لمبی دھار منی کی نکلی اور وہ ڈسچارج ہو گئی۔۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت مزہ آیا کہ کہ وہ ڈسچارج ہوئی تو دھاروں کے ساتھ اور چیخوں کے ساتھ۔۔۔میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اسے گود میں اٹھایا اور ملیحہ جو سمجھ چکی تھی کہ میں اس کی پھدیا میں لوڑا گھسیڑنے لگا ہوں اس نے میرا لوڑا پکڑ کر لبنیٰ کی چوت کی موری پر سیٹ کیااور ایک ہی جھٹکے میں میں نے اپنا لوڑا جڑ تک اس کی چوت میں گھسا دیا اور اس کی چیخ نکل گئی۔۔۔ اب میں نے کہاں رکنا تھا نہ میرے لوڑے پر کسی کی چیخ کا اثر ہونا تھا۔۔ میں نے سپیڈ پکڑ لی۔۔۔ مجھے آج چوت میں بہت مزہ آ رہا تھا ۔۔۔ میں نے ملیحہ سے کہا کہ یہ پلگ اس کی گانڈ سے نکالو اب ذرا اس کی گانڈ چیک کرتے ہیں۔۔۔ ملیحہ نے ایک ہی جھٹکے میں وہ پلگ اس کی گانڈ سے نکال باہر کیااور اس پر اپنا تھوک لگا کر دوبارہ گھسا دیا تا کہ گانڈ رواں ہو جائے۔۔ میں نے اس کی چوت سے لوڑا نکالا اور سیدھا اس کی گانڈ کی موری پر رکھ کر اندر کر دیا۔۔۔ اس کی گانڈ بہت ملائم تھی اور میرا لوڑا سیدھا جڑ تک اس کی گانڈ کے غار میں اترتا چلا گیا۔۔ بہت مزہ آیا تھا اس کی گانڈ میں ڈالنے کا ابھی میں نے پانچ گھسے ہی مارے ہوں گے کہ وہی لمبی لڑکی آ گئی اور میں اس کے تنے ہوئے ممے دیکھ کر حیران رہ گیا۔۔۔ چھوٹے لیکن خوب تنے ہوئے ممے ایک الگ سا نظارہ پیش کر رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ لوگوں کی گانڈ کی طرح اس کی پھدیا تنگ ہو گی۔۔۔ میں نے اکثر دیکھا تھا کہ جن لڑکیوں کے ممے تنے ہوئے ہوتے ہیں ان کی چوت بہت ٹائٹ ہوتی ہے۔۔۔ اس کے پیچھے پیچھے ویٹریس بھی تھی جس نے مجھے وہ خاص مشروب دیا تھا۔۔ اس ویٹریس نے آتے ہی مجھے فرنچ کس دی اور میں نے محسوس کیا کہ اس کے منہ میں کچھ تھا جو اس نے اپنی زبان کے ساتھ ہی میرے منہ میں گھسا دیا اور میں نے اس کا بہت ہی خوش گوار ذائقہ محسوس کیا۔۔ ویٹریس میرے کان میں بولی کہ اب لگے رہو دو گھنٹے بھی کرو گے تو نہیں تھکو گے۔۔ میں نے دیکھا کہ اب وہ لمبی لڑکی جس کا نام فرزانہ تھا وہ مجھ پر اپنا قبضہ جمانے جا رہی تھی۔۔۔ لبنیٰ نے مجھ سے خود کو چھڑوایا اور واجد کے ابا کی طرف بڑھ گئی اور فرزانہ میرے ساتھ لپٹ گئی۔۔ ملیحہ کسی اور کی رنڈی بنیی ہوئی تھی اس لیے اب ہم دونوں ہی تھے اور ویٹریس بھی میری منہ میں وہ چیز ڈال کر جا چکی تھی اور میں اب ایک نئی توانائی اپنے اندر محسوس کر رہا تھا۔۔ میں نے اس لڑکی کو سیدھا لٹایا اور اس کی چوت پر اپنا لوڑا سیٹ کرنے کے لیے جیسے ہی لوڑے کو پکڑا تو میں نے محسوس کیا کہ میرا لوڑا بہت موٹا اور لمبا ہو چکا ہے۔۔۔ مجھے حیرت بھی ہوئی اور خوش بھی کہ پہلے سے زیادہ لمبا موٹا اور سخت لگ رہا تھا۔۔۔ میں نے اسی جوش میں فرزانہ کی پھدیا میں لوڑا گھسا دیا۔۔۔ لیکن یہ کیا کہ میرا لوڑا اندر جانے کی بجائے پھسل گیا اور باہر ہی رہا۔۔۔ فرزانہ بڑے فخریہ انداز میں بولی سر اتنا آسان نہیں ہے میری پھدیا میں اتنا موٹا اور لمبا لوڑا گھسانا۔۔ میں یہی دیکھنا چاہتی تھی کہ آپ پہلی بار میں گھسا پاتے ہیں یا نہیں لیکن آپ کا اتنا موٹا ہے کہ پہلے بار میں اندر نہیں جائے گا میری چوت بہت تنگ ہے۔۔۔ میں نے کہا کہ فکر نہ کرو مجھے علم نہ تھا اس لیے پھسل گیا دوسری بار یہ نہیں پھسلے گا بلکہ اندر ہی پھسلتا جائے گا ورنہ اس موٹے اور تنے ہوئے لوڑے کا فائدہ ہی کیا ہے۔ یہ کہہ کر میں نے لوڑے پر تھوک لگایا اور چوت کی موری پر سیٹ کر کے پوری طاقت کے ساتھ اندر زور لگایا۔۔ فرزانہ بھی پوتی طاقت سے میری طرف زور لگا رہی تھی۔۔ میں اس کے اندر گھسا چکا تھا۔۔۔ میرا لوڑا اندر گھس تو گیا لیکن مجھے لگا کہ یہاں سخت گرم بھٹی اور تنگ سرنگ ایسی گرمی لگی کہ میرے لوڑے کو پسینہ آ گیا۔۔ مجھے لوڑا اندر گھساتے ہوئے پسینہ آ گیا تھا اور لوڑے کو اندر کی گرمی نے بے حال کر دیا تھا۔۔ میں نے ایک دو مرتبہ آدھا آدھا لن باہر نکال کر پھر اندر گھسایا پورا میں اس لیے نہیں نکال رہا تھا کہ کہیں دوبارہ اندر ڈالنے کے لیے محنت نہ کرنی پڑے۔۔ اگر ویٹریس نے مجھے مشروب خاص اور وہ چیز میرے منہ میں نہ ڈالی ہوتی جو وہ منہ سے منہ لگا کر ڈال گئی تھی تو میں لوڑے کے اندر گھستے گھستے ڈسچارج ہو چکا ہوتا لیکن اب لوڑا آہستہ آہستہ رواں ہو رہا تھا اور مجھے حیرت کے جھٹکے لگ رہے تھے جو میں اسی کی انتہائی تنگ پھدی میں واپس بھیج رہا تھا۔ ۔۔۔رات بھیگ رہی تھی اور چدائی زوروں پر تھی۔۔ ۔ میں نے یونی کی ساری لڑکیوں کو چودا لیکن جو مزہ فرزانہ کو چودنے کا آیا وہ کسی اور کو چودنے کا نہیں آیا۔۔۔ میں نے فرزانہ سے کہہ دیا تھا کہ میری مہمان نوازی قبول کرو۔۔ اس نے کہا کہ جب چاہیں۔ یوں میں نے اسے اپنا نمبر دے دیا اور اس کا نمبر لے لیا۔ پارٹی اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی۔۔ جو بھی فرزانہ کو لوڑا ڈالتا ایک منٹ میں فارغ ہو جاتا اور سب کی منی ایک پیالے میں ڈالی جا رہی تھی اور جب سب ڈسچارج ہو گئے تو سبھی کہنے لگے کہ احمد تو ڈسچارج نہیں ہو رہا۔۔ میں نے ویٹریس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ میری خیر ہے آپ پارٹی کا اختتام کر دیں۔۔ تو پارٹی اپنے انجام کو پہنچی لیکن دراصل میں ویٹریس کی پھدیا مارنا چاہتا تھا اور وہ بھی اسی انتظار میں تھی۔۔ سبھی لگ کپڑے پہننے لگے اور یونی کی لڑکیوں کو بھی فرخندہ اور ملیحہ کے ابو چھوڑنے چلے گئے۔۔ میری حور اس پارٹی میں نہیں آئی تھی۔ جب سب لوگ رخصت ہوگئے تو کمرے میں ویٹریس اور میں ہی تھے۔۔ میں نے ویٹریس کو پکڑا اور کسنگ کرنی شروع کر دی۔۔ ویٹریس نے کہا کہ یہاں نہیں۔۔ مجھے میرے گھر چھوڑ آئیں پھر دیکھیں مزہ۔ میں نے کہا کہ چلو۔ میں اسے لے کر باہر آگیا جہاں میری گاڑی کھڑی تھی۔

Share this content:

Post Comment