01-میمونہ اور ثنا کی چدائی

499436478_122228061092222045_6239970440429048867_n-623x1024 01-میمونہ اور ثنا کی چدائی

Part -1
میرا ایک شاگرد عامر جو اب زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں پڑھ رہا تھا مجھ سے بولا کہ سر آپ بہت بڑے فن کار ہیں لیکن میں تب مانوں جب میری ایک کلاس فیلو لڑکی میمونہ کو چودیں گے کیونکہ وہ کسی کے قابو نہیں آ رہی اور میں اس سے بدلہ لینا چاہتا ہوں کیونکہ اس نے مجھے طعنہ دیا ہے۔ میں نے اپنے فن کار شاگرد کو حیرت سےدیکھا اور کہا کہ گڈو یہ کیا کہہ رہے ہو میرے گڈو کو اس نے طعنہ دیا ہے تو کیسے ہو سکتا ہے کہ میں اسے چھوڑ دوں میں نہ صرف خود اس کو چودوں گا بلکہ اپنے پیارے بھائی کا لوڑا بھی اس گشتی کے نہ صرف منہ ڈالوں گا بلکہ اس کی پھدی اور گانڈ میں بھی ڈالوں گا۔ فکر نہ کرو مجھے ذرا اس کا نام پتہ اور کوئی کونٹیکٹ دے دو۔ عامر بولا بھائی وہ کسی کو فون نمبر نہیں دیتی لیکن اس کا فیس بک اکاؤنٹ ہے میرے پاس۔ میں نے اس سے فیس بک اکاؤنٹ لیا اور اس کا پیج کھول کر دیکھنا شروع کیا۔ وہ لڑکی مجھے باقی لڑکیوں سے واقعی الگ لگی کیونکہ اس کے چہرے پر سنجیدگی نما سختی تھی۔

عامر خود ایک شہزادہ لڑکا تھا اور اس نے کالج میں کوئی لڑکی نہیں چھوڑی تھی جس کو اس نے واش روم، یا کلاس روم میں چودا نہ ہو لیکن میمونہ والا معاملہ ٹیڑھا نظر آتا تھا۔ وہ جس لڑکی کو بھی چودتا دوسری بار اسے میرے بنگلے پر لے آتا میری طرف سے اس کو آفر ہوتی تھی اور پھر اگر لڑکی پسند کرتی تو میں بھی اسے چود لیتا لیکن میری عادت تھی کہ میں نے کبھی کسی کے ساتھ زبردستی نہ کی تھی اور میرا چودنے کا انداز ایسا تھا کہ کئی ایک لڑکیاں عامر کو اس کی بدتمیزی اور بدتہذیبی سے پیش آنے کی وجہ سے چھوڑ چکی تھیں لیکن میرے ساتھ وہ اب بھی تعلق میں تھیں کیونکہ میں بہت پیار کے ساتھ لمبی چدائی کا ماہر تھا۔ خیر میں نے میمونہ کو فرینڈ ریکوئسٹ بھیجی اور روزانہ چیک کرتا تھا لیکن وہ آن لائن ہونے کے باوجود ایکسیپٹ نہیں کر رہی تھی۔ میں نے اس کی پوسٹس پر بھی بہت اچھے اور مہذب انداز میں کمنٹس کیے تھے جن پر اس نے شکریہ تو کہا لیکن میری فرینڈ ریکوئسٹ قبول نہیں کی تھی۔ خیر میں بھی اس کی پوسٹس پر لائک کرتا رہا۔ لیکن اس کی طرف سے میری فرینڈ ریکوئسٹ قبول نہیں ہو رہی تھی اور مجھے کوئی جلدی نہ تھی کیونکہ عامر نے مجھے ایک سال کا ٹارگٹ دیا ہوا تھا اور میں نے کہا تھا کہ ایک سال سے پہلے پہلے میں میمونہ کو چود لوں گا۔ میمونہ نے اپنی آئی ڈی پر اپنی اصل تصاویر لگائی ہوئی تھیں اور بے ہودہ کمنٹ کرنے والوں کو کبھی ریسپانس نہیں کرتی تھی جو میرے حساب سے اس کے بہت زیادہ ذہین اور سمجھدار ہونے کی نشانی تھی اور ایسی لڑکی کبھی چوت کی گرمی کو اہمیت نہیں دیتی یہ بھی میرا تجربہ تھا۔ خیر میں بھی ہار ماننے والا نہیں تھا۔

ایک ماہ گزرنے کے بعد ایک دن میں نے ان باکس میں دیکھا تو میمونہ کی طرف سے میسج آیا ہوا تھا۔ میں نے وہ میسج پڑھا تو اس میں لکھا تھا کہ آپ کون ہیں اور کہاں رہتے ہیں؟ آپ کو میرا اکاؤنٹ کس نے دیا اور آپ کیوں میری پوسٹس پر آتے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ میں نیویارک سے پڑھا ہوا ہوں اور اپنے ملک کی خدمت کرنے آیا ہوں یہاں ایک یونیورسٹی میں پڑھاتا ہوں اور آپ کی ڈی پی دیکھی تو اچھی لگی اس لیے آپ کا اکاؤنٹ چیک کیا اور آپ کی ہر ایک پوسٹ لاجواب ہوتی ہے اس لیے اس پر کمنٹ نہ کرنا میں سمجھتا ہوں ناانصافی ہے اس لیے کمنٹ کرتا ہوں اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ میمونہ نے اگلے دن میسج کیا کہ آپ کا انداز بہت اچھا لگا۔ میں ایک لڑکی ہوں اور میں نے کبھی کسی سے نہیں چھپایا کیونکہ میں نے کبھی کسی کو رسپانس نہیں دیا۔ آپ کے کمنٹس اور آپ کا رویہ بہت مثبت لگا اس لیے آپ کو رسپانس دے رہی ہوں۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی اپنا امریکہ والا نمبر بھیج دیا کہ اگر آپ مجھ سے رابطہ کرنا چاہیں تو کر سکتی ہیں۔ وہ حیرت زدہ ہو کر کہنے لگی کہ یہ نمبر تو میرے موبائل میں محفوظ ہے۔ آپ سر احمد ہیں؟ میں نے کہا کہ اب حیران ہونے کی باری میری ہے محترمہ! میرا نمبر کیسے محفوظ ہے آپ کے موبائل میں؟ اور اگر ہے تو یہ بڑٰ زیادتی ہے کہ آپ نے کبھی میسج کرنے کے قابل نہیں سمجھا۔ اس نے کچھ یاد کیا اور مجھ سے کہنے لگی کہ آپ فلاں یونیورسٹی آئے تھے وہاں آپ نے لیکچر دیا تھا ۔ میں اس وقت وہاں بی ایس کر رہی تھی اور وہاں سے آپ کا لیکچر سن کر آپ ہی سے آپ کا نمبر بھی لیا تھا لیکن بعد میں رابطہ نہ کر سکی۔ میں نے کہا کہ کوئی بات نہیں مونا آپ اب اگر رابطہ کرنا چاہو تو کر لو۔

اسی وقت میں نے واٹس ایپ چیک کیا تو مونا کے نمبر سے مجھے ایپ آ چکا تھا۔ وہ کہنے لگی کہ میری زندگی میں واحد آپ ایسے پروفیسر ہیں جن سے یرا دل کیا تھا کہ بات کروں گی لیکن آپ سے بھی نہ کر پائی خیر اب ہماری بات ہو سکتی ہے۔ ہم مختلف باتیں پسند ناپسند کے حوالے سے کرتے رہے اور پھر اچانک اس کا میسج آنا بند ہو گیا۔۔ دو دن بعد میسج آیا کہ سر! آپ مجھ سے ملنے آ سکتے ہیں؟ میں نے کہا کہ مونا کہاں آؤں؟ کہنے لگی کہ یونیورسٹی آ جائیں۔ میں نے کہا کہ کب آ جاؤں؟ کہنے لگی کہ بے شک کل ہی آ جائیں۔ میں نے کہا دیکھو مونا! تمہاری یونیورسٹی نے الگے مہینے مجھے لیکچر کے لیے شیڈیول کیا ہوا ہے اس لیے اس سے پہلے میں یونیورسٹی کے اندر آ کر تم سے ملنا نہیں چاہتا اس کے بعد بے شک روزانہ کہنا آ جایا کروں گا لیکن اس سے پہلے اگر ملنا ہے تو باہر کسی ریسٹورنٹ میں مل لیتے ہیں کھانا میری طرف سے اور بیٹھ کر گپ شپ بھی لگا لیں گے۔ میمونہ نے کہا کہ بالکل ٹھیک ہے لیکن ساتھ میری ایک کلاس فیلو جو میری بیسٹ فرینڈ ہے وہ بھی ہو گی۔ میں نے کہا کہ بالکل ٹھیک ہے۔ میں یونیورسٹی گیٹ پر تمہارا انتظار کروں گا۔ اس نے کہا کہ کل 12 بجے آ جائیں۔

497377566_122228099840222045_5986170480236499082_n 01-میمونہ اور ثنا کی چدائی

اگلے دن میں نے بالکل سادہ سا لباس پہنا ، قیمتی پرفیوم لگایا، اپنا اے ٹی ایم اور کچھ نقد رقم اور کچھ تحائف دونوں سہیلیوں کے لیے خرید کر پورے بارہ بجے زرعی یونی کے سامنے نئے ماڈل کی ٹویوٹا گرسیڈا کھڑی کی تو سامنے ہی میمونہ اور اس کی کلاس فیلو کو دیکھا وہ بھی مجھے دیکھ چکی تھیں اورایک ظالم قسم کی مسکراہٹ کے ساتھ کار کی طرف قدم بڑھا چکی تھیں۔ میمونہ دراز قد، سفید رنگت اور بہت سمارٹ سی لڑکی تھی جبکہ اس کی کلاس فیلو کھلے ہوئے گندمی رنگ کی ایک دھان پان سی نسبتاً چھوٹے قد والی لڑکی تھی۔ دونوں آگے آئیں اور پچھلا دروازہ کھول کر بیٹھنے لگیں تو میں نے کہا کہ مونا آگے آ جاؤ۔ تو مونا نے شکریہ کہہ کر اگلا دروازہ کھولا اور بیٹھ گئی جیسے ہی دونوں بیٹھیں میں نے بغیر ان کی طرف دیکھے کار آگے بڑھا دی۔ کہاں جانا ہے؟ میں پوچھا۔۔۔ ثنا کہاں جانا ہے؟ میمونہ نے اپنی کلاس فیلو سے پوچھا۔ ثنا بولی: سالٹ اینڈ پیپر۔۔۔۔ میں نے سرینہ ہوٹل والی روڈ پر کار موڑ دی اور کہا کہ مجھے گائیڈ کر دینا۔۔ مونا نے میرا فون پکڑا اور اس پر گوگل میپ نکال کر ڈیش بورڈ پر لگا دیا۔ میرا موبائل اور بٹوہ اکٹھے پڑے تھے۔ مونا نے موبائل سے فارغ ہو کر میرا بٹوہ اٹھایا جس میں میرا لائسنس، امریکہ والا آئی ڈی کارڈ اور پاکستان والا اے ٹی ایم اور کچھ کیش پڑا ہوا تھا۔ سب نکال کر چیک کیا۔ میں دیکھ بھی رہا تھا اور مسکرا بھی رہا تھا لیکن کچھ نہیں کہا۔ مونا نے پوچھا: سر آپ کی شادی ہو چکی ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں۔۔۔ عمر کتنی ہے آپ کی؟ میں نے کہا کہ 32 سال۔۔ ثنا پہلی بار ہنستے ہوئے بولی کہ مونا چوڑی بن سکتی ہے۔۔۔ شٹ اپ! میں نے کہا کہ جوڑی اس سے پوچھ تو لیں مونا کہ کس کے ساتھ بنا رہی ہیں؟ ہو سکتا ہے کہ اپنے ساتھ بنا رہی ہوں؟ تو ہم تینوں قہقہہ لگا کر ہنسنے لگے۔ مونا کہنے لگی کہ یہ کہتی ہے کہ ہم ایک ہی مرد سے شادی کریں گی۔۔۔ میں نے کہا کہ کوئی حرج نہیں۔۔ اگر آپ دونوں ایک ہی مرد سے شادی کریں تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔ دونوں ہنسنے لگیں اور میں بھی تھوڑا مسکرایا۔۔۔ مونا کہنے لگی لیکن سر کوئی مرد ملے تو۔۔۔ یہاں مرد تو نہیں بلکہ ایک سے بڑھ کر ایک چوتیا ہے جو صرف ایک شارٹ لگانا چاہتا ہے اور شارٹ لگانا بھی اکثر کو نہیں آتی۔۔۔۔ اب میرے ہنسنے کی باری تھی۔۔۔ میں ہنسا اور چھوٹے سے قہقہے کے ساتھ ہی خاموش ہو گیا۔۔۔ ثنا شوخی سے کہنے لگی کہ سر آپ نہیں بول پائے نا؟۔۔ میں نے کہا کہ بعض معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے پریٹیکل کی ضرورت ہوتی ہے یہ تھیوری والا معاملہ نہیں ہے اور میں پریکٹیکل والا انسان ہوں باتیں کرنے والا نہیں۔۔۔ ایک لمبی ہوووووووں دونوں کے منہ سے بہ یک وقت نکلی۔۔۔ اتنے میں سامنے سالٹ اینڈ پیپر ریسٹورنٹ آ گیا۔۔۔۔ ہم نے کار کھڑی تو ایک باوردی ملازم آگے آیا اور اس نے کہا کہ سر پارکنگ ادھر ہے اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو میں کار پارک کر کے آپ کو چابی لا دوں؟ میں کار سے نیچے اترا۔۔۔ میرا بٹوہ اور دونوں موبائل میمونہ نے پکڑ لیے ۔۔۔۔دونوں سہیلیاں بھی نیچے اتریں اور وہ باوردی ملازم جلدی سے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا اور ہم تینوں ریسٹورنٹ اندر چلے گئے۔۔۔۔ اٹیچڈ باتھ والا فیملی روم ثنا نے پہلےسے بک کر رکھا تھا۔۔۔ دو منٹ گزرے ہوں گے کہ دروازہ ناک ہوا ۔۔۔ میں دروازے پر گیا تو ملازم نے چابی لا کر مجھے دے دی اور کہا کہ سر یہ کون سی کار ہے پہلے کبھی ایسی کار یہاں نہیں دیکھی۔۔۔ میں نے کہا کہ یہ ٹیوٹا کرسیڈا ہے۔ کہنے لگا کہ بہت اعلیٰ نسل کی کار ہے۔۔۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔۔۔ اور میمونہ اور ثنا سے کہا کہ آپ نے آرڈر کرنا ہے اپنی مرضی سے۔۔۔ میں ذرا واش روم سے ہو لوں۔۔۔ میمونہ نے انٹرکام اٹھایا اور آرڈر کرنے لگی۔۔۔ میں واش روم میں گیا اور حسبِ معمول دروازہ اندر سے لاک نہیں کیا کیونکہ میں اپنے گھر میں اکیلا ہی رہتا تھا اس لیے دروازہ لاک کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔۔۔ اندر دو واش رومز بنے ہوئے تھے ایک لیڈیز کے لیے اور ایک مردانہ ۔۔۔ میں ہاتھ دھو رہا تھا کہ ثنا اندر آئی اور مسکرا کر واش روم میں چلی گئی۔۔ پھر اچانک باہر نکلی اور مجھے کہنے لگی کہ احمد! آپ بہت پیارے ہیں ۔۔۔ میں نے کہا کہ شکریہ۔۔۔ کہنے لگی کہ بس شکریہ؟ میں نے کہا کہ آپ مجھے بہت پیاری لگی ہو۔۔۔۔ اتنا کہہ کر اس ن ایک چٹ مجھے تھمائی اور واش روم میں چلی گئی۔۔۔ میں نے چٹ دیکھے بغیر جیب میں ڈال لی کیونکہ مجھے علم تھا کہ اس پر اس کا فون نمبر لکھا ہو گا اور باہر آ کر میمونہ کے سامنے بیٹھ گیا۔ میمونہ نے کہا کہ سر! مجھے آپ اچھے لگے اس لیے آپ سے لنے کو دل کیا تو آپ کو بلا لیا ورنہ میں لڑکوں سے بہت دور رہتی ہوں۔۔۔ میں نے کہا کہ مجھے احمد کہہ لیں تو زیادہ بہتر ہے سر نہ ہی کہیں۔ اور ہاتھ آگے بڑھا کر کہا کہ دوستی؟؟؟ میمونہ نے فورا ہاتھ آگے بڑھایا اور کہا کہ پکی دوستی لیکن صرف دوستی۔۔۔ میں نے کہا کہ بالکل ٹھیک میں لڑکیوں کا بہت احترام کرتا ہوں اور کبھی بھی کسی لڑکی کی مرضی کے خلاف اسے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ میمونہ کہنے لگی کہ احمد! سب لوگ آپ جیسے نہیں ہیں۔ یہاں ہر کوئی بھیڑیا بیٹھا ہوا ہے اور اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔۔ میں نے بے چینی کا اظہار کرتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ کیا ہوا ہے؟ کہنے لگی کی ایک سر مجھ پر عاشق ہیں اور مجھے تین بار فیل کر چکے ہیں صرف اس لیے کہ وہ مجھ سے اپنے فلیٹ پر ملنا چاہتے ہیں اور میں ایسی لڑکی نہیں ہوں کہ پاس ہونے کی خاطر چدواتی پھروں۔۔۔ سب چوتیے اکٹھے ہیں یہاں۔۔۔ اور اس نے مجھے تین بار فیل کر دیا ہے اب آخری چانس ہے اور اس نے اگر مجھے فیل کر دیا تو میرا ایک سال ضائع ہو جائے گا۔ میں نے اس کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ فکر نہ کرو اس بار وہ تمہیں پورے نمبر دے گا لیکن تم نے یہ بات ثنا تک کو بھی نہیں بتانی۔۔۔ میمونہ نے حیرت زدہ ہو کر میری طرف دیکھا اور کہنے لگی کہ وہ بہت کمینہ انسان ہے جب تک لڑکی اس کا بستررنگین نہیں کرتی وہ پاس نہیں کرتا۔۔۔ میں نے کہا کہ اگر تمہیں بغیر بستر رنگین کرنے کے وہ میکس نمبر دے تو؟ مونا کہنے لگی کہ پھر تو میں آپ کی ممنون احسان ہوں گی۔ میں نے کہا کہ آب خوش ہو جاؤ اور کھانا کھاؤ۔۔۔ ابھی ہم یہ بات کر رہے تھے کہ دروازہ ناک ہوا میرے یس کہنے پر اور ویٹر ٹرالی لے کر اندر آ گیا ادھر ثنا بھی باہر آ گئی۔۔۔ کھانا ٹیبل پر چن دیا گیا اور ویٹر واپس جا چکا تھا۔۔۔ میں نے ثنا کی طرف ہاتھ بڑھایا اور کہا کہ دوستی؟ ثنانے میرا ہاتھ زور سے پکڑا اور کہا کہ پکی دوستی۔۔۔ ساتھ ہی اس نے میرا ہاتھ مخصوص سیکسی انداز میں دبا دیا۔۔۔ میرا فون اور بٹوہ ابھی تک میمونہ کی قید میں تھے اور مجھے کوئی فکر نہیں تھی۔۔۔ 

ہم نے کھانا کھایا میمونہ نے میرے بٹوے میں سے بل پے کیا اور وہی باوردی ملازم اتنی دیر میں ہمارے کار لے کر ریسٹورنٹ کے دروازے پر آ چکا تھا میں نے مونا سے کہا کہ ڈارلنگ! اسے ٹپ دے دو۔۔۔ مونا نے میری طرف دیکھا اور پھر ایک سو روپے کا نوٹ اس ملازم کو دے دیا میں نے کہا کہ ایک سو اور دے دو۔۔۔ شاپنگ کہاں کرنی ہے؟۔۔۔ میں نے کہا۔۔۔ میمونہ کہنے لگی کہ نہیں میں نے کچھ نہیں لینا۔۔ لیکن میں نے کہا کہ ڈارلنگ ایسا نہیں ہو سکتا آج ہی دوستی کی ہے آج کیا اب کبھی انکار نہیں چلے گا۔۔۔ کہنے لگی کہ سوچ لیں احمد! آپ کا بٹوہ خالی ہو جائے گا۔۔۔ میں نے کہا کہ میری کون سا بیوی انتظار کر رہی ہے یا بچے رو رہے ہیں؟ ۔۔۔۔ تم بے فکر ہو کر شاپنگ کرو۔۔۔ جانا کہاں ہے؟ کہنے لگی چلیں پھر میں آپ کو اپنی پسند کا پرفیوم لے کر دوں گی۔۔۔ میں نے کہا ٹھیک ہے تو کہنے لگی کی کھاڈی پر چلتے ہیں۔۔۔۔ اور میرے فون پر گوگل سے نکال کر میرے سامنے فٹ کر دیا اور کہنے لگی کہ احمد! آپ نے فون لاک نہین لگایا ہوا اور آپ کو کوئی میسج یا کال نہیں آئی ابھی تک۔

میں نے کہا کہ میرا کوئی دوست نہیں ہے بس ایک فون بزنس کا ہے اور میرا بزنس امریکہ میں ہے یہاں دن ہے تو وہاں رات ہے اس لیے کوئی میسج یا کال نہیں آ سکتی اور دوسرا فون اکیڈیمک ہے اور اس لحاظ سے میں چھٹی پر ہوں۔

کھاڈی سے دونوں نے اپنی اپنی پسند کی شاپنگ کی اور مونا نے میرے لیے اپنی پسند کا پرفیوم لیا اور ثنا نے اپنی پسند کا اور مجھے گفٹ کر دیا۔۔۔ واپس یونی کے گیٹ پر اتار دیا اور خدا حافظ کر کے میں نے کار آگے بڑھا دی۔۔۔۔ تھوڑی دور جا کر کار سایڈ پر کھڑی کی اور جیب سے ثنا کی دی ہوئی چٹ نکالی اور دیکھا تو اس کا نمبر بھی لکھا ہوا تھا اور یہ بھی کہ آج رات یہیں رک جائیں۔۔۔ میں نے نمبر فیڈ کیا اور میسج کر دیا۔۔۔ پانچ منٹ بعد ہی جواب آیا کہ رات کہاں رکنا ہے؟ میں نے کہا کہ سرینا میں رک جاؤں؟ جواب آیا یس! میں نے کہا کہ کمرہ میں پہنچ کر بتاتا ہوں ۔۔۔ جواب آیا کہ نہیں ایک گھنٹے بعد مجھے لے جائیں اور اکٹھے ہوٹل جائیں گے تا کہ کسی کو شک نہ ہو کہ یہ الگ الگ آئے ہیں کیونکہ یہ شہر چھوٹا سا ہے اور یہاں ایسے ہی اس طرح کوئی مسئلہ بن سکتا ہے۔۔۔ میں نے کہا ٹھیک ہے اور سوچنے لگا کہ یہ تو تجربہ کار لگتی ہے۔

ایک گھنٹے بعد میں نے ثنا کو وہیں سے اٹھایا اور سیدھا سرینا پہنچے۔۔۔ کمرہ میں فون پر بک کروا چکا تھا۔ کار پارک کی تو ایک ملازم آگے آیا اور میرے لیپ ٹاپ والا بیگ پکڑ ا میں نے کمرے کا نمبر بتایا اور اس کے پیچھے ہو لیا ۔ کمرہ بکڈ تھا اس لیے ہمیں ریسیپشن پر جانے کی ضرورت نہیں تھی ہم دوسرے رستے سیدھے اپنے روم میں چلے گئے۔۔۔ پورٹر کو ایک سو روپے دیئے اور کہا کہ کافی اور ثنا کی طرف دیکھا تو اس نے کہا کہ کچھ نہیں۔

496094238_122228187764222045_3587523909437025406_n 01-میمونہ اور ثنا کی چدائی

ہم کمرے میں آ گئے اور کمرے میں داخل ہوتے ہی ثنا نے مجھے پکڑ کر میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ گاڑ دیئے اور میں بھی شروع ہو گیا لیکن میں اس حملہ کے لیے تیار نہ تھا۔۔۔ بہرحال مرد کو تیار ہونے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔۔۔ لڑکی کی طرف سے اشارہ کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔میں سٹارٹ ہو گیا۔۔۔۔ کسنگ کرتے کرتے ہم بیڈ تک آئے اور میں اس وقت تک اپنے کپڑے اتار چکا تھا صرف انڈروئر میرے جسم پر تھا اور ثنا نے بھی اپنے شرٹ اتار دی ہوئی تھی۔۔۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور اس کی جینز بھی اتار دی۔۔۔ اب میدان صاف تھا۔ ثنا میری پسندیدہ پھدی لے کر میرے سامنے کھڑی لمبے لمبے بالوں والی پھدی ہمیشہ میرے لوڑے کو بہت جلدی کھڑا کرتی ہے میں نے دیکھا کہ ثنا کی پھدی پر لمبے گھنے بال ہیں تو میں نے ثنا کو ایک گڑیا کی طرح اپنی باہوں میں اٹھایا اور بیڈ پر لٹانے کی بجائے صوفے پر لے گیا اور اس کی پھدی چاٹنا شروع کر دی۔۔۔ 69 پوزیشن میری پسندیدہ پوزیشن تھی اور فورا ہی ہم اس پوزیشن پر آ گئے ۔۔۔ ثنا دو بار جھڑ چکی تھی اور اس کے ڈسچارج ہونے کا عمل مجھے بہت اچھا لگا اس کی پھدی نے پانی کے فوارے چھوڑے تھے اور یہ انداز میرا پسندیدہ انداز تھا کسی بھی لڑکی کے ڈسچارج ہونے کا مجھے بڑا مزہ آتا ہے فوارہ دیکھنے کا۔۔۔۔ ابھی میرا 8″ لمبا اور 5۔5″ موٹا لوڑا ثنا کے منہ میں آدھا بھی نہیں گیا تھا کہ انٹرکام بج اٹھا۔۔۔ میں نے ریموٹ سے دروازہ کھول دیا اور ویٹریس ٹرالی لے کر اندر آ گئی اور ہمیں دیکھے بنا ٹیبل پر کافی اور کچھ جوس رکھ کر واپس جانے لگی تو ثنا نے کہا کہ ایک بوتل وائن اور سوڈالا دو۔ میں تو پیتا نہیں تھا لیکن خاموش رہا کیونکہ ثنا پیتی تھی۔۔۔ یس میم کی آواز آئی اور ویٹریس باہر چلی گئی اور ٹھیک دس منٹ بعد دوبارہ انترکام کی گھنٹی بجی تو میں نے ریموٹ سے دروازہ کھولا اس بار ایک نئی ویٹریس صرف پینٹی اور برا پہنے اندر آئی اور ٹیبل ہر بوتل اور سوڈا رکھ کر دو پیگ تیار کرنے لگی۔۔۔ میں خاموش رہا ہم ابھی تک 69 پوزیشن میں تھے۔۔۔ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ ثنا پہلے بھی یہاں آتی رہتی ہے۔۔۔ ویٹریس نے ایک پیگ ثنا کو دیا اور دوسرا مجھے دینے لگی تو میں نے کہاکہ نہیں میں نہیں پیتا۔۔۔ تو اس نے بڑی بے تکلفی سے وہ گلاس اپنے منہ کو لگایا اور ایک ہی گھونٹ میں گلاس خالی کر دیا۔۔۔۔ ثنا نے کہا کہ جوائن کرو گی؟۔۔۔۔ ویٹریس کہنے لگی کی وائے ناٹ؟ میں حیران تھا لیکن خاموش تھا۔۔۔ ویٹریس انگریزی میں کہنے لگی کہ بےبی یہ تو پہلے والوں سے بڑا اور موٹا ہے کہاں سے آیا؟ ثنا کہنے لگی کہ بے بی! جوائن اَس۔۔۔ تو وہ آ کر میرا چہرہ اٹھاکر مجھے فرنچکس کرنے لگی۔۔۔ اس کے منہ سے وائن کی بو اچھی لگی رہی تھی۔۔۔ میں نے زندگی میں پہلی بار یہ بو اتنے قریب سے سونگھی اور اس کی زبان پرلگی ہوئی وائن کو ٹیسٹ کیا اتنی دیر میں ثنا میرے نیچے سے نکلی اور پینے لگی۔۔۔۔ ثنا نے اسے بھی بے لباس کر دیا اور خود صوفے پر بیٹھ کر پینے لگی اور ویٹریس نے میرے ساتھ کسنگ جاری رکھی۔۔

پھر ویٹریس نے انگریزی میں ہی ثنا سے کہاکہ اس سر کا لوڑا میرے حساب سے جتنے پچھلے بندے آپ لے کر آتی رہی ہو ان سب سے بڑا اور موٹا ہے اس لیے لگتا ہے کہ آج بہت مزہ آنے والا ہے۔ ثناکہنے لگی کہ بس ایسا ہی ہے اور یہ انسان بھی ایسا ہی مزیدار ہے۔ اب وہ لڑکی اپنامنہ لے کر میرے لوڑے پرآ چکی تھی اور پھر اس نے کمال کا چوپا لگانا شروع کر دیا۔ میرا لوڑا تو پھٹنے کے قریب تھا۔ اتنے میں ثنا نے وائن ختم کی اور سیدھی میرے میرے لوڑے کیطرف آئی اور ویٹریس جس کا نام نتاشا تھا اور وہ رشین لڑکی تھی اس نے میرا لوڑا جڑ تک منہ میں لیا اور پھر میرے لوڑے کا سیدھا کھڑا کر دیا اور ثنا میرے لوڑے پر بیٹھتی چلی گئی۔ ایک سیکنڈ کے اندر میرا لوڑا ثنا کی پھدی میں غائب ہو چکا تھا۔ نتاشا نے مجھ سے پوچھا کہ سر اور کچھ چاہیے؟ میں نے کہا کہ تمہاری پھدی۔۔۔ کہنے لگی کہ نہیں میرا کام اتنا ہی تھا اس سے آگے نہیں جاتی اب آپ دونوں مزہ کریں میں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ اس کے بعد وہ چلی گئی لیکن میں نے ثنا کو کیا چودنا تھا ثنا نے مجھے چودنا شروع کر دیا۔ پھر دورانِ چدائی ثنا نے مجھے بتایا کہ آپ جس لڑکی کی پھدی کے چکر میں ہیں وہ آپ کو نہیں ڈالنے دے گی کیونکہ وہ لیزبین ہے اور میں اس کی پھدی کو چاٹتی ہوں اور وہ یہی جانتی ہے کہ میں بھی ل لیزبین ہوں لیکن وہ یہ نہیں جانتی کہ روزانہ نیا لوڑا لیے بنا میں سو نہیں سکتی اور میری روزانہ سرینا میں بکنگ ہوتی ہے اور اکثر لوگ بالوں والی پھدی کو پسند کرتے ہیں اورآپ بھی ایسے ہی ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ لڑکی؟ ثناکہنے لگی کہ اس کا کام مجھے وائن پلانا اور میرے لائے ہوئے آدمی کا لوڑا کھڑا کرنا ہے اور اس کا میں اس لڑکی کو پے کرتی ہوں یہ رشین لڑکی ہے اور اگر آپ اس کی پھدی مارنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو پے منٹ کرنا ہو گی۔ میں نے کہا کہ میرا لوڑا کھڑا کرنے تک کی پے منٹ بھی میں ہی اسے کروں گا تم نے نہیں کرنی۔ ثنا کہنے لگی کہ جیسے آپ کی مرضی لیکن پہلے مجھے تو چودیں ۔ اور میں ثنا کے ساتھ مصروف ہو گیا۔ کبھی آگے سے اور کطھی کتیا بناکر اور کبھی گھوڑی بنا کر اسے چودتا رہا اور وہ مزے کرتی رہی میں نے کوئی دو گھنٹے اسے چودا اس دوران اسے میمونہ کی کال آئی اور اس نے سپیکر کھول دیا اور اس سے بات کرنے لگی۔ میمونہ میری بات کرنے لگی اور ثنا سے پوچھنے لگی کہ احمد تمہیںکیسے لگے ہیں؟ ثنا نے کہا کہ پہلے تم بتاؤ ؟ تو میمونہ کہنے لگی کہ مجھے تو آج تک جتنے بھی مرد دیکھے ہیں ان سب سے مختلف لگے ہیں اور سچ پوچھو تو میرا دل ان سے دوبارہ ملنے کو کر رہا ہے۔ ثنا کہنے لگی کہ میرے محسوسات بھی یہی ہیں کہ احمد سر ایک مختلف قسم کے انسا ن ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ اس انسان کو اہمیت دو اور اس کو اپنالو۔ میمونہ کہنے لگی کہ تم جانتی ہو کہ مجھے بھی وہ اچھے لگے ہیں جس کی وجہ سے میں نے ان سے ملنے کا فیصلہ کیا تھا وہ بہت خیال رکھنے والے انسان ہیں۔ پھر اچانک میمونہ نے پوچھا کہ تم کہاں ہو ذرا کیمرہ چلاؤ۔۔

ثناکہنے لگی کہ میرے سر میں درد ہے اور لائٹ مجھے تکلیف دیتی ہے اس لیے اب میں سونے لگی ہوں صبح تمہیں کال کروں گی اور اس نے فون بند کر دیا۔ جیسے ہی اس نے فون بند کیا میرا فون روشن ہوا اور میں نے دیکھا کہ میمونہ کی کال آ گئی۔ میں نے فورا کال اٹینڈ کی اور بولا جی میرے مون کیسے ہیں؟ مونا کہنے لگی کہ واپس پہنچ گئے؟میں نے کہا کہ نہیں میں رستے میں ہوں اور رستے میں ایک جگہ رک گیا ہوں اور کچھ آرام کرنا چاہتا ہوں اس لیے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں ٹھہر گیا ہوں۔ مونا کہنے لگی کہ اچھا ذرا کیمرہ چلا کر مجھے بھی دکھائیں میں نے کہا کہ ابھی لو اور ثناکو اشارہ کیا وہ ایک طرف بیڈ کی سائیڈ پر چلی جائے اور خود کو چھپا لے۔ ثنا نے خود کو چھپا لیا اور میں نے کیمرہ کھول دیا اور میمونہ سے بات شروع کر دی۔ میرا لوڑا کھڑا تھا اور میں ننگا ہی تھا مونا نے کہا کہ آپ تو سونے کی تیاری میں ہیں۔ میں نے کہا کہ میں رات سوتے وقت کپڑے اتار دیا کرتا ہوں۔ مونا نے ہنستے ہوئےکہا کہ اچھا ذرا دکھائیں اپنا سینہ؟ میں نے اپنا سینہ دکھایا اور ساتھ ناف تک کیمرہ لے گیا اور ایک تیزی سے جھٹکا دیا اور ایسا شو کیا جیسے کیمرہ اچانک ہلا ہو اور نیچے اپناکھڑا لوڑا بھی دکھا دیا اور سوری کرتے ہوئے کیمرہ چہرے کی طرف لے آیا۔ مونا نے کہا کہ کوئی بات نہیں۔ میں نے مونا سے کہا کہ مجھے بھی اپنا سینہ دکھا دو مونا نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا نہ کبھی سوچیئے گا۔ میں نے کہا سوری ٹھیک ہے میں آئیندہ نہیں کہوں گا۔ مونا نے خوش ہو کر کہا کہ آپ بہت اچھے ہیں۔ اور یہ کہہ کر فون بند کر دیا۔ ثنا کو پکڑا اور دوبارہ چودناشروع کر دیا۔۔۔۔ ایک گھنٹہ مزید چودنے کے بعد میں نے ثنا کے منہ میں پانی چھوڑنا چاہا تو اس نے کہا کہ ٹھہرو احمد! میں نے کہا کیوں؟ کہنے لگی کہ نتاشا کو سپرم بہت پسند ہیں وہ پیے گی یہ کہہ کر اس نے فون پر ایک ٹیکسٹ کی اور دو منٹ کے بعد نتاشا اندر تھی اور آتے ہی اس نے میرے لوڑے پر حملہ کر دیا اور دو منٹ کے بعد ہی اس نے میرا لوڑا نچوڑنا شروع کر دیا اور میری منی کے فوارے اس کے منہ میں چھوٹنا شروع ہو گئے۔ میں فارغ ہو چکا تھا اب نتاشا میری ساری منی پی چکی تھی اور پھر شکریہ کر کے کمرے سے باہرنکل گئی تھوڑی دیر بعد ثنانے فون چیک کیا اور کہا کہ روم 301 میں میری ایک بکنگ ہے میں دو گھنٹے کی بکنگ کے بعد آتی ہوں میں نے کہا کہ اچھا جی۔۔۔ وہ چلی گئی۔۔۔ میں سونے کی تیاری میں تھا کہ پانچ منٹ بعد انٹرکام بجا اور میں نے ریموٹ سے دروازہ کھول دیا۔۔۔ پہلی ویٹریس اندر آئی اور سیدھی میرے پاس آ کر بیڈ پر لیٹ گئی اور میرا لوڑا چوسنا شروع کر دیا ۔۔۔ میرے لیے یہ بات حیرت انگیز تھی کہ یہ کیا۔۔۔ وہ کہنے لگی کہ میں نے آپ کا لوڑا دیکھااور مجھے بہت پسند آیا اس لیے میں نے اپنی بکنگ ثنا کو دے دی ہے اور خود تمہارے پاس آ گئی ہوں۔ میں نے کہا زبردست۔۔۔اورپھر ایک اور چدائی سیشن شروع ہو گیا میں نے اس سے کہا کہ ذرا واش روم سے ہو لوں۔۔۔ واش میں جا کر میں نے پینٹ کی جیب سے بٹوہ لیااور اس میں سے ایک گولی نکالی اور کھا لی جومیںبوقت ضرورت استعمال کےلیے رکھی ہوتی ہے۔۔۔ بس میں بھی چاہتا تھا کہ یہ لڑکی اب مجھ سے مایوس نہ جائے۔۔۔ میں نے دو گھنٹے مسلسل اس کو چودا اور اس کی گانڈمیں بھی لوڑا ڈالا اور اس نے بہت انجوائے کیا۔۔۔ ابھی میں اس کو چود ہی رہا تھا کہ انٹرکام بجا اور میں نے دروازہ کھولا تو سامنےثناتھی وہ اندر آئی اور وہ بالکل نارمل تھی اور پاس آ کر اس نے ڈارلنگ کہہ کر اس ویٹریس کو چوما اور مجھ سے کہنے لگی کہ احمد مجھے توآپ نے پیچھے نہیں چودا میں نے کہا کہ اب آ جاؤ ثنا ڈارلنگ۔۔۔ اور ثنا جو ننگی ہی تھی اس نے فورا اپنی گانڈمیرے لوڑے کے سمنے پیش کر دی اور میں نے ویٹریس کیگانڈ سے لوڑانکالا اور ثنا کی گانڈ میں ڈال دیا۔۔۔ بس پھر کیا تھامیں نے دھکے پر دھکا مارنا شروع کر دیا تھوری دیر بعد میںثناکیگانڈسے نکال کر ویٹریس کی گانڈمیں ڈالتا اور پھر اس طرح یہ سیشن آدھے گھنٹے سے زیادہ چلا اور اب میں تھک چکا مسلسل چدائی نے مجھے مزہ دیا اور تھکابھی دیا تھا۔۔۔۔ ثنا کہنے لگی کہ نتاشا کے لیے مال نکالیں۔۔۔ اتنے میں نتاشابھی آگئی اور میرا لوڑامنہ میں لے کر دو منٹ میں مجھے فارغ کر دیا اور میری ساری منی کھا گئی۔۔۔ ثنا نے بھی اپنے کپڑے پہنے اور کہنے لگی کہ اوکے احمد پھرملاقات ہو گی اور یہ یادگار رات یاد رہے گی اور یہ کہہ کر کمرے سے نکل گئی۔۔۔۔ نتاشا پہلے ہی جا چکی تھی اور ویٹریس ٹرالی لے کر باہر نکل گئی۔۔۔۔ اور میں وہیں ڈھیر ہو کر سو گیا۔۔۔

499603121_122228114384222045_9086710014962749616_n 01-میمونہ اور ثنا کی چدائی

اگلی صبح میرے فون کی بیل نے مجھے جگادیا وہ میمونہ کی کال تھی اس نے گڈ مارننگ کہا اور میں نے کہا کہ اچھا کیا مجھے جگا دیا۔ میں جلدی سے نہا کر کپڑے پہن کر باہر نکلا اور کار میں بیٹھ کر لاہور کے لیے روانہ ہو گیا۔ اڑھائی گھنٹےمیں میں اپنی ڈیوٹی پر تھا۔ سارا دنمیمونہ کے میسج آتے رہے اور ثنابھی میسج کرتی رہی۔ ثنا کا کہنا تھا کہ وہ میرے پاس لاہور آ کر میرے ساتھ کچھ دن گزارنا چاہتی ہے کیونکہ اس کا گھر شیخوپورہ میں تھا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے جب چاہے آج جاؤ۔ لیکنمیرا اصل ٹارگٹ تو میمونہ تھی۔ بہرحال دو دن گزر گئے ایک دن اچانک ثنا کا میسج آیا کہ میں لاہور کے لیے ڈائیوو پر بیٹھ چکی ہوں آپ مجھے رسیو کر لیں۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اسے رسیو کرنے چلاگیا۔ اسے لا کر گھر میں چھوڑا۔ وہ گھر دیکھ کر اور زیادہ متاثر ہوئی۔ اور کہنے لگی کہ میمونہ بہت خوش قسمت ہو گی اگر آپ سے شادی کر لے۔ میں نے سوچا کہ شادی کونکرے گا میمونہ سے میں توصرف اسے چودناچاہتا ہوں اور اس کو چودنے تک کا سفر اب تک میرے لوڑے کو تین منہ، دو پھدیوں اور دو گانڈوں کی سیر کروا چکا ہے۔ خیر ثنا کہنے لگی کہ میں اپنیایک دوست کو بلا لوں اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو؟ میں نے کہا کہ جناب آپ اپنا ہی گھر سمجھیں ایک کوچھوڑ جتنی دوستوں کوبلانا چاہیں بلالیں لیکن میمونہ کو علم نہ ہو کہ آپ یا آپ کی باقی دوست یہاں آئی ہوئی ہیں۔ میں نے کہا کہ دوسرے بیڈ روم میں آپ جو چاہیں کرسکتی ہیں۔ میرے بیڈ روم میں چدائی بھی نہیں ہو گی۔ ثنا نے کہا کہ اچھا دوسرا بیڈ روم چدئی روم ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں وہاں میرے دوست بھی آتے ہیں اور اپنی گرلز لاتے ہیں اور چدائی کا کھیل چلتا رہتا ہے۔ لیکن اب میں نے اپنے دوستوں کو کہہ دیا ہے کہ کچھ دن ادھر کا رخ نہ کریں بلکہ میرے دوسرے فلیٹ میں چلے جایا کریں کیونکہ میرے خاص مہمان آئے ہیں۔

میں رات کو گھر آیا تو گھر میں بریانی اور چکن کیخوش بو پھیلی ہوئی تھی۔۔ گھر میں کافی عرصے بعد کھاناپکا تھا۔۔۔ ثنا اور اس کی دو دوستوں اور ایک لڑکا دوست نے مل کر کھانا پکایا تھامیںآیا تو سبھی مجھ سے اسطرح ملے جیسے میں ان کا دیرینہ دوست ہوں۔ ثنا ان سے کہنے لگی کہ حنا اور رخشی جب میں چلی جاؤں تو سر کا بعد میں بھی خیال رکھنا اب انکا کھانا وغیرہ تمہارے ذمہ ہے۔ میں نے شکریہ ادا کیا۔ رخشی چھوٹے قد کی بہت ہی خوب صورت سڈول جسم اور لمبے کالے سیاہ بالوںوالی ہنس مکھ لڑکی تھی اور اور حنا کودیکھ کر تودل کرتا تھا کہ بار باردیکھا جائے دودھیا رنگت اور بڑی بڑی چھاتیاں۔۔۔۔ میرا دل کیا کہ ابھی اس کو پکڑ لوں لیکن اس کا بوائے فرینڈ بھی ساتھ تھا۔۔۔۔

ہم سب نے مل کر کھانا کھایا۔۔۔ ثنا، حنا اور اس کا بوائے فرینڈ بیڈ روم میں گھس گئے اور رخشی برتن دھونے ولی مشین میںبرتنلگانے لگی اور میں اس کا ساتھ دینے لگا۔۔ مجھے لگا کہ رخشی ان کی نسبت زیادہ سگھڑ ہے۔۔۔ کھانا بھی اسی نے پکایا تھا۔۔۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم دونوں ایکدوسرے سے کافی فری ہوچکے تھے اور میں نے اسے اپنے سینے سےلگالیا اور اس کے ہونٹ چومنے لگا۔۔۔۔ اور اسے اٹھا کر وہیں صوفے پر لے گیا اور ہم کنسگ کرنے لگے۔۔۔ ساتھ ہی پتہ ہی نہیں چلاکب ہم نے اپنے کپڑے اتار دیئے اور پھر میں رخشی کی پھدی پر تھا اور وہ میرے لوڑے پر۔۔۔۔ اس کی پھدی پر ہلکے ہلکے بال تھے جیسے ابھی ابھی نئے ریشمی بال آئےہوں۔ میں اس کے بالوں کو چومنے لگا۔۔۔ اس کی پھدی سے ایک پیاری سی مہک اٹھ رہی تھی جومجھے دیوانہ کر رہی تھی۔ اس نے میرا لوڑا دیکھا تو کہا کہ احمد! ایسا موٹا اور لمبالوڑا میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔۔۔ اور میرے پوڑے پر پل پڑی۔۔۔ ہم دونوں کافی دیر ایک دوسرے کو چوستے اور چاٹتے رہے ہمیں پتہ ہی نہیں چلا کہ کب سے ثنا اور اس کے باقی دوست ننگے ہی ہمارے پاس کھڑے ہمیں دیکھ رہے تھے حنا للچائی ہوئی نظروں سے میرا لوڑا دیکھ رہی تھی۔۔۔ اور جب میری نظر اس کے بوائے فرینڈزیب کے لوڑے پر پڑی تو مجھےحیرت ہوئی کہ اس کا لوڑالمبائی میں تومیرے لوڑے جتناتھا لیکن تھا بہت باریک۔۔۔ جیسے کوئی پینسل ہو۔۔۔ وہ بھی میرے لوڑے کی موٹائی دیکھ کر پاگل ہو رہا تھا۔۔۔۔ حنا نے رخشی سے کہا کہ مجھے بھی سر کی خدمت کا موقع دو۔۔۔ تو رخشی نے میرا لوڑا منہ سے نکالا اور حنانے اپنے منہ میں ڈال لیا۔۔۔

498969456_122228114222222045_6710546534985862170_n-605x1024 01-میمونہ اور ثنا کی چدائی

رخشی اور حنا نے ثنا سے کہا کہ تم ٹھیک کہتی تھیں واقعی سر کے لوڑے جیسا لوڑا ہم نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔ ادھر زیب ہمارے سر پر اپنا پمبا پتلا لن لے کر کھڑا تھا۔ جسے حنا نے اپنی چوت میں ڈلوا لیا اور اسے کہا کہ تم فارغ نہ رہو کچھ کام کرو لیکن پانچ منٹ کی چدائی کے بعد زیب فارغ ہو گیا۔ زیب کی پرابلم یہی تھی کہ وہ جلدی فارغ ہو جاتا تھا جبکہ میرے لیے ڈسچارج ہونا ایک مسئلہ تھا۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ رخشی میرے لوڑے کے اوپر بیٹھ گئی اور اچھلنے لگی۔۔۔ اس کی پھدی بہت تنگ محسوس ہوئی اور لگا کہ میرے لوڑے کا دم گھٹ جائے گا۔۔ کوئی پندرہ منٹ میرے لوڑے پر اچھل کود کے دوران رخشی چار بار ڈسچارج ہو چکی تھی۔۔۔ وہ اتری تو حنا بیٹھ کر لوڑا سواری کرنے لگی۔۔۔ حنا کی پھدی بھی رخشی کی طرح بہت تنگ تھی۔۔ دو بار اندر ڈالنے کی کوشش میں میرا لوڑا پھسل گیا۔۔۔ لیکن بالآخر اندر جا کر سانس لیا۔۔۔ دس منٹ کی اچھل کود کے بعد میں نے نیچے سے نکلنے کی کوشش کی اور حنا اوپر سے اتر گئی۔۔۔ رخشی نے فورا میرا لوڑا منہ میں ڈال لیا۔۔۔ حنا زی کا لوڑا کھڑا کرنے میں مصروف ہو گئی۔۔ ثنا گانڈ لے کر تیار تھی اس نے رخشی سے کہا کہ یار میری گانڈ کی موری پر اپنا تھوک لگا دو تا کہ احمد کا لوڑا اپنی گانڈ میں لے سکوں۔۔۔ پھر میں نے ثنا کی گانڈ میں لاڑا ڈال کر کوئی سات آٹھ منٹ اسے چودا اور اس کے بعد رخشی کی گانڈ تیار تھی۔۔۔ رخشی کی گانڈ میں ڈالتے ہوئے مجھے پسینہ چھوٹ گیا۔۔۔ بہت تنگ گانڈ تھی۔۔۔میں نے پندرہ منٹ چودا اور پھر رخشی کو پکڑ کر اس کی گانڈ میں ڈال دیا۔۔۔ رخشی اور حنا کو کتیا بنا کر اوپر نیچے کیا اور اب میں حنا کی چوت میں ڈالتا اور ایک بار رخشی کی گانڈ میں ڈالتا باری باری دونوں کی گانڈ اور چوت مار رہا تھا ادھر زیب نے جب حنا کو چھوڑا تو ثنا تیار تھی اور اس نے اپنا لمبا لوڑا ثنا کی گانڈ میں ڈال دیا۔میں اب ڈسچارج ہونے والا تھا کیونکہ حنااور رخشی کی گانڈیں بہت ٹائٹ تھیں اور انہوں مجھے ڈسچارج ہونے کے قریب کر دیا تھا کہ عین اس وقت فون کی گھنٹی بجی میں نے دیکھا تو میمونہ کی کال تھی۔۔ میں جلدی سے ڈسچارج ہوا اور اور اسی طرح ننگا اور لوڑے پر حنا اور رخشی کی گانڈ اور پھدی کا گیلا پن لے کر اپنے بیڈ روم میں چلا گیا اور جاتے جاتے ثنا کو آواز دی کہ ادھر کوئی نہ آئے کیونکہ میمونہ کی کال آئی ہے اسے پتہ نہ چل جائے کہ تم لوگ یہاں ہو۔۔۔۔

میں نے میمونہ کی کال اٹینڈ کی اور اس نے مجھے بتایا کہ وہ سر کہہ رہا ہے کہ اگر تم نے اس بار میری بات نہ مانی تو میں تمہیں فیل کر دوں گا اور یہ سال تمہارا ضائع ہو جائے گا۔۔ میں نے کہا کہ تمہارا امتحان کب ہے؟ اس نے بتایا کہ پرسوں امتحان ہے۔۔ میں نے کہا کہ تم فکر نہ کرو تمہارا کام ہو جائے گا۔۔۔ اس کے بعد میں نے اس کے سر کو کال ملائی وہ چونکہ مجھے جانتا تھا اس لیے بات کرنے میں کوئی دقت نہ ہوئی۔ میں نے حال وغیرہ پوچھنے کے بعد بتایا کہ میں اگلے ہفتے آپ کی یونی میں لیکچر دینے آ رہا ہوں اور ساتھ ہی کہا کہ تمہاری ہونے والی بھابھی سے بھی تمہیں ملواؤں گا۔۔۔ اور یہ سرپرائز ہے۔۔۔ وہ بہت خوش ہوا اور کہنے لگ کہ کون ہے وہ شہزادی جو ہمارے اس شہزادے کی بیویبنےگی؟ میں نے کہا کہ اگر تم کچھ دن راز رکھنے کا وعدہ کرو تو بتا بھی سکتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ تم اسے جانتے بھی ہو گے۔۔ وہ حیران ہو کر کہنے لگا کہ اچھا پھر تو ضرور پوچھوں گا۔۔ میں نے کہا کہ یار ایک کام ہے۔۔ اس نے پوچھا کہ کیا؟ میں نے کہا کہ یار تیری ہونے والی بھابھی تیری ہی یونی میں پڑھتی ہے لیکنایک پروبلم ہے کہ وہ ایک مضمون میں تین بار فیل ہو چکی اور پرسوں اس کا پرچہ ہے اس کا استاد کوئی بہت خبیث انسان ہے کیونکہ وہ اسے چودنا چاہتا ہے اور تیری بھابھی ایسی لڑکی نہیں ہے وہ اسی چکر میں تین بار فیل ہو چکی ہے۔۔۔ اب چوتھی بار اگر وہ فیل ہو گئی تو اس کا سال ضائع ہو جائے گا۔۔۔ یار میں پریشان ہوں کیونکہ وہ مجھے اس کا نام بھی نہیں بتا رہی۔۔ تمہیں علم ہے کہ کون ساایسا استاد ہے یونی میں جو لڑکیوں کو پاس کرنے کی آڑ میں چودتا ہے؟ وہ کہنے لگا کہ نہیں ایسا تو کوئی استاد میرے علم میں نہیں ہے لیکن تم فکر نہ کرو میں اس بار بھابھی کو فیل نہیں ہونے دوں آپ مجھے اس کا نام بتا دو۔ میں نے بتایا کہ میمونہ نام ہے اس کا ۔ کہنے لگا کہ یار تمہاری بیوی اورہماری ہونے والی بھابھی اس بار میری گارنٹی ہے کہ فیل نہیں ہوں گی۔۔۔ میں نے کہا کہ ابھی میمونہ کو بتانا نہیں کہ میں نے تم سے بات کی ہے اور تمہیں بتا دیا ہے کہ ہم شادی کرنے والے ہیں ۔۔ میں تمہیں خود اس سے ملواؤں گا بس ایک ہفتے دس دن کی بات ہے۔۔۔ وہ کہنے لگا کہ یار فکر نہ کرو اس دن کا ڈنر میری طرف ہو گا اور تمہاری بھابھی بھی تم دونوں سے مل کر بہت خوش ہو گی ۔۔۔ میں نے کہا کہ اب ایک سرپرائز میں مونا کو دوں گا کہ اس کو نہیں بتاؤں گا کہ اس دن ڈنر تمہاری طرف ہو گا اور اگر کہو گے تو رات بھی تمہاری طرف ہی رک جائیں گے۔۔۔ مجھے معلوم تھا کہ اس بات پر اس کی رال ضرور ٹپکے گی۔۔۔ وہی ہوا وہ کہنے لگا کہ اس سے بڑی کیا بات ہو گی جناب! آپ رک جانا رات۔۔۔ میں نے پکا وعدہ لیا کہ یار اگر وہ استاد کچھ پیسے بھی لینا چاہے تو میں دینے کو تیار ہوں لیکن یار اپنی بھابھی کوپا ضرور کروانا ہے۔۔۔ اس نے کہا کہ یار فکر نہ کرو کہہ دیا اور کر دیا اور ہاں میں پتہ کرتا ہوں کہ اس سبجیکٹ کا استاد کون ہے اور اگر وہ کچھ پیسے مانگے گا تو میں اسے پے منٹ کر دوں گا فکر نہ کرو۔۔ اب میمونہ بھابھی میری عزت کی جگہ پر ہیں اور وہ ضرور اس بار کامیاب ہو جائیں گی۔ میں نے اچھے طریقے سے اس کی غٰرت جگا دی تھی اور اب مجھے یقین تھا کہ میمونہ پاس ہو جائے گی۔ اس کا فون بند کر کے میں نے میمونہ کو فون ملا دیا اور اسے بتایا کہ میری بات ہو گئی ہےاور اس بار تم پاس ہو اب وہ تمہارے ساتھ بہت عزت سے پیش آئے گا اور تمہارے سامنے بہت ادب کے ساتھ کھڑا ہو گا اور تم سے اپنی اس بات کی معافی بھی مانگے گا جو وہ تم سے کرتا رہا ہے۔۔۔ اگلے دن میمونہ بہت خوش تھی اور اس نے مجھے کال کی کہ آپ تو جادوگر ہیں۔۔۔ واقعی سر نے میرے سامنے شرمندگی کا اظہار کیا اور آپ کے حوالے سے کہا کہ سر احمد کی آپ رشتہ دار ہیں آپ نے پہلے کیوں نہ بتایا آپ مطمئن رہیں اور اطمنان سے امتحان دیں۔۔۔ خیر اگلے دن مونا کاامتحان تھا اور اسی شام کو مونا نناوے فیصد نمبر لے کر اے پلس گریڈ میں پاس تھی اور اس سر نے مجھے اس کے پیپر کی تصویریں بھی بھیج دی تھیں۔اور نمبر بھی بتا دیئے جو میں نے مونا کو بتابھی دیئے جس پر وہ بہت خوش ہوئی۔ میں نے اسے کہا کہ ایک سرپرائز بھی ہے تمہارے لیے جو اگلے منڈے کو میں تمہیں دوں گا میں تمہاری یونی میں لیکچر کے لیے آ رہا ہوں اور اس کے بعد ایک خاص جگہ ہمارا ڈنر ہے تم تیار رہنا اور اکیلی۔۔۔ مونانے کہا کہ مجھے آپ پر یقین ہے جہاںبھی چاہیں لے جا سکتے ہیں میں تیار رہوں گی اور بتا دیں کہ کون سا ڈریس پہنوں؟ میں نے کہا کہ یہ تمہاری مرضی پر ہے کیونکہ تم جوبھی لباس پہنو گی اس میں پیاری ہی لگوگی۔۔۔

چند دن بعد میرا لیکچر تھا اور میں نے اس سر کا شکریہ ادا کیا اور لیکچر بڑی کامیابی سے ہوا۔ بعد میں میں نے میمونہ کو لیا اور باہر جا کر اس کی پسندیدہ جگہ سے آئس کریم کھائی اور پھر اسے لے کر سرینہ میں آ گیا۔ کمرہ پہلے سے بک کروا لیا تھا۔ مونا خاموش تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ ہوٹل کے کمرے میں جاتے ہوئے وہ تھوڑا ہچکچا رہی ہے۔ لیکن میں نے اسے کچھ نہ پوچھا نہ کچھ کہا۔ میں نے کار پارک کی اور مونا کا بیگ اٹھا کر اسے کہا کہ آ جاؤ۔ ہم پرائیویٹ انٹرنس سے کمرہ میں چلے گئے پارکنگ میں ہی مجھے کمرے کا کارڈ وغیرہ دے دیا گیا تھا۔ ہم اندر آئے اور میں نے مونا سے کہا کہ تھوڑا ریلیکس ہو جاؤ اور اس کے بعد ایک سرپرائز ہے آج کا ڈنر ایک خاص شخصیت کی طرف سے ہے اور ہم تھوڑی دیر میں ان کی طرف سے میسج آنے پر ان کی طرف نکل جائیں گے۔میں نے مونا سے کہا کہ بالکل بے فکر ہو جاؤ اور کبھی یہ مت خیال کرنا کہ میں تمہیں تمہاری مرضی کے خلاف ہاتھ بھی لگاؤں گا اس لیے ری لیکس ہو جاؤ۔

499436478_122228061092222045_6239970440429048867_n-623x1024 01-میمونہ اور ثنا کی چدائی

میں نے منہ ہاتھ دھویا اتنے میں کافی آ گئی اور مونا کے لیے جوس آ گیا ہم نے وہ پیا اور میں نے مونا سے کہا کہ اب میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ تمہارے سر نے تمہیں کس لیے پاس کیا ہے اور میں نے کیا کہہ کر تمہیں پاس کروانے کی بات کی تھی۔ میں نے اسے بتایا کہ میں نے سر سے کہا تھا کہ یار میری ہونے والی بیوی آپ کی یونی میں پڑھتی ہے۔ میں نے اسے بالکل نہیں بتایا کہ تم نے اسے تین مرتبہ فیل کیا ہے نہ ہی اس نے مجھے بتایا کہ اس کا ممتحن میں ہوں۔ بس بات ڈھکی چھپی ہی رہی ہے اور اس نے مجھے کہا کہ مجھے بتائیں کہ بھابھی کون ہیں تو میں نے اسے تمہارا نام بتا دیا تو اس نے کہا کہ فکر نہ کرو اس بار وہ فیل نہیں بلکہ بہت اعلیٰ نمبروں میں کامیاب ہوں گی اور اس کا ریزلٹ تمہارے سامنے ہے اور اس نے مجھے صرف یہ درخواست کی تھی کہ جب آپ لیکچر دینے آؤ تو میرے گھر ڈنر کرنا ہے میں نے ہاں کہہ دیا اور اب ہم اس کی طرف ڈنر پر جا رہے ہیں۔ یہ سنتے ہیں مونا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور چوم کر کہنے لگی کہ احمد آپ واقعی بہت اچھے ہیں میں نے تو تیس ہزار کی خود شاپنگ کی اور ثنا کو بھی بیس ہزار کی شاپنگ کروائی تھی تا کہ آپ بھاگ جائیں کہ میں آپ کا خرچہ کروا رہی ہوں لیکن آپ نے تو واقعی ثابت کر دیا کہ آپ مجھ سے پیار کرتے ہیں۔ میں نے اس کے سنہرے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ مونا میں تمہاری عزت بھی بہت کرتا ہوں۔ دل میں میں یہی سوچ رہا تھا کہ ڈنر کے بعد تمہاری سیل اسی سرینہ ہوٹل کے اسی کمرے میں کھلے گی اور پھر صبح ہم لاہور جائیں گے اور ایک ہفتہ میرے گھر میں تمہارے چدائی ہو گی اور ہو سکتا ہے کہ عامر سے بھی اس کی چدائی وہیں کروا دوں۔۔

ابھی میں اپنی سوچوں میں گم تھا کہ مونا نے اٹھ کر میرے گال پر بوسہ دیا اور مجھے اپنے ساتھ چمٹا لیا۔ا س کی چھاتیاں تنی ہوئی میرے گالوں کے ساتھ لگ گئیں۔ میں نے اسے مضبوطی سے پکڑ لیا اور خود بھی کھڑا ہوا کر اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا۔ اور اس کے ماتھے پر ایک بوسہ دیا اور کہا کہ مونا چلو چلیں وہ ہمارا انتظار کر رہا ہے۔ مونا کسی خواب سے جیسے کوئی باہر آتا ہے ایسے ہوئی اور پھر ایک بار مجھ سے لپٹ گئی اور میرے گال پر بوسہ دیتے ہوئے بولی آپ بہت اچھے ہیں۔ میں نے کہا کہ بس اب باتیں کرتی رہو گی یا چلو گی بھی میری ہونے والی اہلیہ محترمہ! مونا سچ میں شرما گئی۔ ہم باہر آئے تو مونا میرا ہاتھ پکڑ کر چلنے لگی اور اپنا سر میرے کندھے پر اٹکا دیا۔ میں نے کہا کہ کیا ہوا؟ کہنے لگی کہ آپ کو کیا لگتا ہے؟ میں نے کہا کہ اچھا لگتا ہے۔۔۔ وہ مترنم ہنسی ہنس دی اور ہم چلتے رہے۔ کار تک پہنچے۔۔۔ مونا کہنے لگی کہ میں ڈرائیو کروں میں نے کہا کیوں نہیں۔ اور ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھولا اور اسے بیٹھنے کو کہا۔ وہ بیٹھی۔۔۔ میں بیٹھا اور کر چل پڑی۔۔۔ اسے سر کے گر کا پتہ نہیں تھا میں نے گوگل پر ایڈریس لگا دیا اور کار آہستہ آہستہ سر کے گھر کی طرف سرکنے لگی۔۔۔ کوئی پندرہ منٹ کی ڈرائیو کے بعد ہم سر کے گھر کے سامنے پہنچے اور میں نے سر کو پہلے سے میسج کر دیا تھا کہ پندرہ منٹ تک آ رہے ہیں تو سر باہر نکل کر کھڑے تھے چنانچہ جب انہوں نے دیکھا کہ مونا ڈرائیو کر رہی ہے تو مزید کسی سوال کی کوئی گنجائش ہی نہ رہی میں نے مونا سے کہا کہ اپنے پاس ہونے کا شکریہ میرے سامنے ادا نہ کرنا ورنہ اسے علم ہو جائے گا کہ مجھے ساری بات کا علم ہے۔ مونا کہنے لگی کہ جیسے آپ کا حکم میرے سر کے سائیں، اور میں یک دم ٹھٹک گیا۔۔۔ مجھے لگا کہ مونا تو میرے ساتھ شادی کے لیے تیار ہے جبکہ میرا مقصد صرف اس کی چدائی اور عامر سے اس کو چدوانا ہے۔ میں نے خود کو جھٹک دیا کہ جو ہو گا دیکھا جائے گا ابھی تو ڈنر کریں اور اگر یہ سر بھی حصہ مانگے گا تو میں سخاوت کی انتہا کر دوں گا اور اسے بھی مونا کے اوپر چڑھا دوں گا کیونکہ میرا مقصد تو مونا کو چودنا اور خود کو چدائی کا ایکسپرٹ ثابت کرنا تھا نہ کہ شادی میرا مقصد تھا۔ میں اسی ادھیڑ بنے میں تھا کہ مونا نے مجھےٹوکا کہ احمد! کہاں گم ہیں اور میں اپنے خیالات کی وادی سے نکل آیا اور سامنے سر کھڑے تھے اور مونا مجھ سے کہہ رہی تھی کہ جناب کار سے باہر آ جائیں یا یہیں بیٹھ کر ڈنر کرنا۔ میں باہر نکلا اور سر سے ملا اور مونا نے بھی انہیں سلام کیا اور سر نے بڑی عاجزی سے سر جھکا کر مونا سے کہ کہا کہ آپ تو ہماری بھابھی بننے والی ہیں کبھی آپ نے ذکر ہی نہیں کیا تو مونا شرما گئی اور کہنے لگی کہ سر کبھی اس موضوع پر بات ہی نہیں ہوئی اس لیے میں نے بھی توجہ نہیں دی۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔

499603121_122228114384222045_9086710014962749616_n 01-میمونہ اور ثنا کی چدائی

ڈنر بہت اچھا تھا سر کے بیوی بچوں سے بھی ملاقات ہوئی اور سر کی ایک بیٹی تھی جس کی عمر 16 سال تھی اور وہ بہت ہی خوب صورت تھی بالکل اپنی ماں کی طرح اور ایک بیٹا تھا 14 سال کا اور پھر ایک بیٹی تھی 12 سال کی۔ سر کی بیوی شمائلہ ایک ہنس مکھ اور پڑھی لکھی خاتون تھیں اور اپنی عمر سے بہت کم لگتی تھیں۔ میرا دل کیا کہ میں شمائلہ کے ساتھ بات کروں اور اس کی تعریف کر دوں تو میں نے مونا سے کہا کہ میں ذرا واش روم سے ہو کر آتا ہوں آپ سر سے باتیں کرو۔ میں نے سر سے پوچھا کہ سر واش روم کدھر ہے؟ تو سر نے میرے دل کی بات کی اور وہ کیوں نہ کرتا کیونکہ اسے بھی تو مونا سے بات کرنی تھی اور اپنے دل کا حال بیان کرنا تھا۔ سر نے اپنی بیوی کو آواز دی: شمائلہ!ذرا سر کو واش روم کا بتا دیں۔ شمائلہ نے اندر سے ہی آواز دی کہ اسی بیڈ روم کا واش روم ہی استعمال کر لیں۔ میں اندر گیاتو شمائلہ بھابھی اٹیچڈ باتھ روم کے اندر جا رہی تھیں ایک گہری مسکراہٹ نازک لبوں پر سجا کر کہنے لگیں کہ آپ ایک منٹ رکیں۔۔ میں ٹھٹھکا لیکن رکا نہیں اور باتھ روم میں ان کے پیچھے ہی چلا گیا۔۔۔ اندر جاتے ہیں میں نے کہا کہ آپ تکلفات میں نہ پڑیں۔۔۔ اور انہیں مسکرا کر دیکھا اور کہا کہ آپ بہت خوب صورت ہیں۔۔ اور ساتھ ہی ان کا ہاتھ پکڑ کر اس پر بوسہ دے دیا۔۔۔ انہوں نے مسکرا کر کہا کہ شکریہ۔۔۔ میں نے کہا کہ بس شکریہ؟ تو کہنے لگیں کہ یہاں تو صرف شکریہ ہی ادا کیا جاسکتا ہے۔۔ میں نے کہا کہ اس سے زیادہ کیا کیا جا سکتا ہے اور کہاں؟ تو کہنے لگیں کہ باہر چلیں کہیں آئس کریم کھانے؟ میں نے کہا کہ نیکی اور پوچھ پوچھ۔۔۔ بس ذرا ٹائم نکالیں اکیلے چلتے ہیں۔۔ کہنے لگیں کہ آج رات آپ یہیں رک جائیں۔۔۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے پھر کیا ہو گا؟ تو کہنے لگیں کہ آپ خود دیکھ لیجیے گا کہ کیا ہوتا ہے۔۔۔ میں نے کہا کہ بالکل ٹھیک آج کی رات آپ کے نام۔۔ کہنے لگیں کہ شکریہ اور میرے ہونٹوں پر ایک ہکلا سا بوسہ دے کر باہر نکل گئیں۔۔۔ میں بہت خوش ہوا اور میں نے سوچا کہ مونا کو کوئی بہانہ لگا کر آج رات ادھر رہتا ہوں اور کل مونا کی سیل توڑ لوں گا کیونکہ یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانا چاہیے۔۔ 

498969456_122228114222222045_6710546534985862170_n-605x1024 01-میمونہ اور ثنا کی چدائی

میں واش روم سے باہر نکلا تو مونا سر کے ساتھ کافی ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی۔ میں نے مونا سے کہا کہ مونا ایک پریشانی آ گئی ہے مجھے ابھی نکلنا ہوگا۔۔ سر سے اجازت لے کر ہم دونوں باہر نکلے اور میں نے مونا سے کہا کہ میرے ایک عزیز ہیں وہ یہاں ایک قریبی شہر میں رہتے ہیں ان کی طبیعت خراب ہو گئی ہے اس لیے ابھی مجھے فورا ان کی طرف جانا ہے تم ساتھ چلو گی؟ تو وہ کہنے لگی کہ میں کیسے جاؤں گی؟ تو میں نے کہا کہ پھر آج یا تو تم ہوٹل میں اکیلی رک جاؤ یا پھر اپنے ہوسٹل میں ہی رات گزار لو میں تمہیں کل پک کرتا ہوں اور کل رات ہم سرینہ میں رہیں گے اور پھر پرسوں صبح لاہور۔ مونا اداس ہو گئی اور کہنے لگی کہ دل تو نہیں مان رہا لیکن آپ کی مجبوری ہے۔۔۔ یہ کہہ کر اس نے کہا کہ ٹھیک ہے مجھے ہوسٹل اتار دیں۔۔۔ میں نے اسے ہوسٹل اتارا اور سر کو فون کیا کہ میرا دل تھا کہ آپ کی فیملی اور بچوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنا چاہتا ہوں کیونکہ آپ کے بچون کے ساتھ وقت نہیں گزارا چنانچہ میں واپس آ رہا ہوں آپ لوگ تیار ہو جائیں اور ہم باہر جائیں گے بچوں کو آئس کریم ہو گی میری طرف سے۔ وہ کہنے لگے کہ جیسے آپ کہیں۔ میں گھر پہنچا تو وہ تیار ہو چکے تھے۔۔۔ شمائلہ بھابھی نے ہلکا سا میک اپ کیا ہوا تھا اور گلابی شلوار قمیص پہن رکھی تھی اور اسی طرح کا لباس ان کی بڑی بیٹی نے پہنا ہوا تھا جس میں سے اس کے 32 کے بوبز بھی نمایاں ہو رہے تھے۔ بھابھی نے مجھے ایک سمائل دی اور کہا کہ اس تکلف کی کیا ضرورت تھی؟ میں نے کہا کہ نہیں تکلف نہیں میں نے ضروری سمجھا کہ بچوں کو آیس کریم کھلاؤں اور تھوڑا وقت ان کی ساتھ گزاروں مجھے آپ کے بچے بہت پیارے لگے ہیں اور میں ان کے ساتھ وقت نہیں گزار سکا تھا۔ ۔۔۔ بھابھی نے میرے کان میں آہستہ سے کہا کہ بچوں کے ساتھ یا ان کی ماں کے ساتھ؟ میں نے صرف آنکھ کا ایک کونہ دبانے میں ہی عافیت سمجھی اور بھابھی نے ایک سیکسی مسکراہٹ دی۔۔۔ میں نے کہا کہ چلیں؟ تو سر کی بیٹی میرے ساتھ آ کر چپک گئی کہ میں تو آپ کی کار میں بیٹھوں گی۔۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ میں اور میرے ساتھ سر کے تینوں بچے بیٹھیں گے اور سر اور ان کی وایف اپنی کار میں آئیں گے۔۔۔ ہم باہر گئے۔۔ سر کی بیٹی فریحہ بھاگ کر فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی اور بیٹا کاشف اور چھوٹی بیٹی ملیحہ پیچھے بیٹھ گئے۔۔۔ فریحہ نے کہا کہ مجھے آپ کی کار بہت پسند آئی ہے۔۔ میں نے کہا کہ تم ڈرائیو کر لیتی ہو؟ اس نے کہا کہ کر لیتی ہوں لیکن ابو نہیں کرنے دیتے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ میں ابھی چھوٹی ہوں حالانکہ میں اب اچھی خاصی بڑی ہو چکی ہوں۔ میں نے اس کے بوبز کو گھورتے ہوئے کہا سیکسی سی سمائل دیتے ہوئے کہ بالکل تم ٹھیک کہہ رہی ہو کہ تم بڑی ہو چکی ہو ۔۔۔

آئس کریم کھا کر ہم تھوڑی دیر کے لیے ایک پارک میں رکے اور تھوڑی سیر کی اور اس بار سر شمائلہ اور دونوں چھوٹے بچے اکٹھے تھے میں ذرا ساتھ والی فارمیسی پر رکا تا کہ کنڈوم اور دو تین گولیاں خرید لوں تا کہ ٹائم بڑھا سکوں اور فریحہ میرے ساتھ ہی چلی آئی اور میں نے اسے ذرا سا پیچھے رکنے کو کہا اور خود میڈیکل سٹور سے یہ چیزیں لیں اور اتنی دیر میں سر اور باقی لوگ ذرا دور نکل گئے اور میں اور فریحہ پارک میں پہلے رستے سے داخل ہوئے اندھیرا ہونے کی وجہ سے میں نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور فریحہ کا ہاتھ پکڑ لیا اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر چوما اور کہا کہ آپ بہت اچھے ہیں۔۔ میں نے کہا کہ میں بیڈ میں اور بھی زیادہ اچھا ہو جاتا ہوں۔۔۔ وہ مسکرائی اور کہنے لگی کہ کل دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔۔۔ میں نے کہا کہ دیکھ لینا۔۔۔ اتنا کہہ کر فریحہ نے میری گردن پر اپنا ہاتھ رکھا اور مجھے اپنی طرف کھینچنے لگی۔ میں سمجھ گیا اور ایک سیکنڈ کی دیر کیے بنا اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ گاڑ دیئے اس نے اپنی زبان میرے منہ میں ڈال دی اور تھوڑی دیر ہم دونوں ایک دوسرے کی زبان چوستے رہے اس کے منہ سے بڑٰ پیاری خوشبو آ رہی تھی۔۔ اس نے مجھ سے کہا کہ انکل آپ کے منہ سے بہت پیاری خوش بو آ رہی ہے۔۔۔ میں نے کہا کہ میں بھی یہی کہنے لگا تھا۔۔۔۔ تھوڑی دیر سیر کے بعد ہم سب اکٹھے ہوئے اور واپس گھر کی طرف روانہ ہوئے۔۔۔ مجھے فریحہ نے بتایا تھا کہ اس کے ابو رات کو سونے کی دوا لیتے ہیں اور بہت بے ہوش کر سوتے ہیں لیکن میں نے کہا کہ تم رسک نہ لینا کل پیار کر لیں گے تا کہ تمہاری امی یا کوئی بھائی بہن نہ دیکھ لے تم اپنے کمرے میں جا کر سو جانا کیونکہ میں ہو سکتا ہے کہ چلا ہی جاؤں اور کل گیارہ بجے تمہیں مقررہ جگہ سے پک کر لوں گا۔۔ فریحہ نے کہا کہ ٹھیک ہے ۔۔۔ اب ہم گھر پہنچے تو سر نے فورا اپنی دوا کھائی۔ میں نے کہا کہ اچھا سر میں چلتا ہوں تو فورا فریحہ بولی کہ انکل آپ کیوں جا رہے ہیں اور اتنی رات ہو گئی ہے یہیں رات رہ لیں اور صبح چلے جائیں۔۔ سر کہنے لگےکہ ہاں بھئی احمد بات تو ٹھیک ہے اور ساتھ ہی کہا کہ شمائلہ! سر کو گیسٹ روم میں سلا دو اور یہیں آرام کر لیں اور صبح چلے جائیں۔ میں نے ایک بار اور انکار کیا کہ میری سرینہ میں بکنگ موجود ہے اس لیے آپ تکلف نہ کریں میں چلا جاتا ہوں۔۔۔ اس پر شمائلہ بھابھی بولیں کہ بھائی صاحب! سب کہہ رہے ہیں تو رک جائیں نا۔۔۔ آ جائیں میں آپ کو گیسٹ روم دکھاتی ہوں۔۔ یہ کہہ کر وہ آگے چلنے لگیں۔۔ میں ان کے پیچھے ہو لیا اور بچوں کو خدا حافظ کہا اور کہا کہ اگلی بر جب آؤں گا تو سب کو لاہور لے جاؤں گا اپنے ساتھ۔۔۔ گڈ نائٹ کر کے میں شمائلہ بھابھی کے پیچھے ہو لیا اور گیسٹ ہاؤس میں جیسے ہی داخل ہوا بھابھی نے مجھے دبوچ لیااور لگیں کسنگ کرنے۔۔

497377566_122228099840222045_5986170480236499082_n 01-میمونہ اور ثنا کی چدائی

میں نے کہا کہ بھائی کی جان ابھی ٹھہر جاؤ کہیں کوئی آ ہی نہ جائے کہنے لگیں کہ ایک بار جب سر دوا کھا لیں تو پھر ان کے لیے بیڈ سے اٹھنا محال ہوتا ہے اور آج تو آپ مجھے میرے بستر پر آ کر پیار کریں گے جیسا کہ اکثر ان کے دوست آ کر کرتے ہیں۔۔۔ میں حیران رہ گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ سب دوست بڑے بہن چود ہیں ایک دوسرے کی بیویوں کو چودتے ہیں اور انہیں کے بیڈ پر جا کر چودتے ہیں اور اس طرح سبکو بڑا جوش آ جاتا ہے اور زبردست چدائی ہوتی ہے اور سب بہن چودوں کو معلوم ہے کہ سب کی بیویاں ان کے دوسرے دوستوں سے چدواتی ہیں لیکن کوئی کسی کو کچھ نہیں کہتا۔۔ ہم سب اس طرح مزہ کرتے ہیں کہ سب کو پتہ بھی اور سب کچھ راز میں بھی ہے۔۔ ان میں اکثر دوا کھاتے نہیں ہیں لیکن بہانہ کر دیتے ہیں اور اکثر جاگ کر مزہ کر رہے ہوتے ہیں کہ ان کی بیوی ان کےس اتھ لیٹ کر چدوا رہی ہوتی ہے اور وہ کئی بار اپنا لوڑا پکڑ کر ہلا رہے ہوتے ہیں اور فریحہ کے ابا بھی کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ان کا کوئی دوست مجھے چود کر گیسٹ روم میں آ جاتا ہے تو وہ فورا مجھے پکڑ کر چودنا شروع کر دیتے ہیں اور جب کوئی مجھے چود کر جاتا ہے تو اس دن فریحہ کے ابا کا جوش دیکھنے والا ہوتا ہے اور ویسے بھی فریحہ کے ابا کا لوڑا اپنے سب دوستوں میں سب سے تگڑا ہے اور ان کی ٹائمنگ بھی زیادہ ہے اس لیے سب دوستوں کی بیویاں باری باری آ کر ان سے چدواتی ہیں اور یونی کی لڑکیاں بھی نمبر زیادہ لینے کے لیے ان سے چدواتی ہیں۔۔۔ میں سمجھ گیا کہ ساری کہانی کیا ہے۔۔ کہنے لگیں کہ اب آپ دس منٹ کے بعد ہمارے بیڈ روم میں آ جانا میں چلتی ہوں۔۔۔ وہ چلی گئیں اور میں نے واش روم کی راہ لی۔۔ فریش ہوا کپڑے بدلے اور گولی کھائی۔۔۔ اب میں تیار تھا۔۔ دس منٹ گزرے تو میں شمائلہ بیڈ روم میں تھا اور میرا ڈر تو جاتا رہا تھا کیونکہ جو کچھ شمائلہ نے مجھےبتایا تھا اس کے اعتبار سے تو اگر سر جاگ بھی رہے ہوں گے تو کھسیانے بنے رہیں گے اور ان کی بیوی مجھ سے چدواتی رہے گی۔۔

خیر میں تھوڑی میں شمائلہ کی ہدایت کے مطابق گیسٹ روم کا درواز ہ لاک کر کے تاکہ کوئی بچہ اگر جاگ جائے اور گیسٹ روم میں جائے تو اسے یہی لگے کہ انکل نے اندر سے دروازپ لاک کیا ہوا ہے، چابی لے کر اپنی منہ بولی بہن اور بہنوئی صاحب کے بیڈ روم میں داخل ہو گیا جہاں میری بہن شمائلہ ننگی ہو کر میرا انتظار کر رہی تھی۔۔۔میں نے دیکھا کہ سر کے کپڑے بھی اترے ہوئے ہیں اور شمائلہ ان کا لوڑا چوس رہی ہے لیکن سر واقعی سوئے ہوئے لگ تھے۔۔ شمائلہ بھابھی نے مجھے اشارہ سے کپڑے اتار کر بیڈ پر آ جانے کا کہا۔۔ میں ایک منٹ میں کپڑے اتار کر بیڈ پر چڑھ گیااور شمائلہ بہن کی چوت چاٹنے لگا۔ میں نے دیکھا کہ سر کا لوڑا واقعی بڑا تھا لیکن میرے لوڑے سے موٹائی میں تھوڑا کم تھا۔۔ لمبائی تقریبا ایک جیسی ہی تھی۔شمائلہ نے اپنے شوہر کا لن چھوڑا اور میری پسندیدہ پوزیشن 69 میں آ گئی۔ ا س نے کہا کہ میرا اندازہ ٹھیک ہی تھا کہ آپ کا لوڑا بڑاموٹا اور تگڑا ہو گا۔۔۔ تھوڑی دیر تک وہ میرا لوڑا اور میں اس کی پھدی چوستا رہا اور پھر میں نے جلدی دے اس کی ٹانگیں سیدھی کیں اور اپنا لوڑا اس کی چوت پر رکھا، تین چار بار اس کے دانے پر گھسایا اور ایک ہی جھٹکے سے اندر کر دیا جس پر شمائلہ کی سسکاری نکل گئی۔۔۔ پھر میں نے زور شور کے ساتھ اس کی چدائی شروع کر دی۔۔۔ بیڈ مسلسل ہل رہا تھا اور سر بھی ہل رہے تھے لیکن مجھے کوئی فکر نہ تھی کیونکہ یہ سب لوگ چداکڑ تھے۔۔۔ شمائلہ کی چوت ٹائٹ تھی اور جسم بھی بہت ٹائٹ تھا اور کہیں سے ڈھیلا نہ تھا۔۔۔ کوئی آدھا گھنٹہ چدائی کے بعد میں نے پوزیش بدلی اور شمائلہ کو کتیا بنا کر چودنا شروع کیا اور جب میں اس کی گانڈ کا سوراخ دیکھا تو مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ تو گانڈ بھی مرواتی ہے تو میں نے تھوک پھینکا جو اس کی گانڈ کی موری پر گرا اور جلدی سے میں نے اپنا لوڑا اس کی پھدی سےنکال کر اس کی گانڈ کی موری پر سیٹ کیا اور آرام سے پہلا دھکا لگا یا اور شمائلہ نے پیچھے کو زور لگایا اور کہنے لگی کہ سرکار آرام سے نہ ڈالو بلکہ یکدم ڈالو اس طرح زیادہ مزہ آتا ہے۔۔۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور اندر گھسا دیا۔۔۔اب تو میرا مزے سے برا حال ہو گیا اندر سے گانڈ بہت زبردست ملائم تھی اور میرالوڑا اندر باہر ہونا شروع ہوا۔۔۔ اچانک مجھے لگا کہ شمائلہ پھر ڈسچارج ہو رہی ہے تو اس کی گانڈ بہت زیادہ گرم ہو گئی۔ شمائلہ نے مستی بھری آواز میں کہا کہ احمد! تم تو بیسٹ چدائی کرتے ہو۔۔ آج تک کسی نے میری اتنی دیر چدائی نہیں کی جتنی تم لگا رہے۔۔۔ چار بار ڈسچارج ہو چکی ہوں۔۔ فریحہ کے ابا کے سب دوست زیادہ سے زیادہ دس منٹ لگاتے ہیں اور تمہیں دو گھنٹے ہو چکے ہیں پہلے چسوایا ۔۔۔ پھر چوت میں چودا اور اب گانڈ میں بھی چود رہے ہو اور مسلسل اندر باہر کر رہے ہو۔۔۔ کرو میری جان اور جب چاہو آ سکتے ہو۔۔۔ میں فریحہ کے ابا کو بتا دوں گی کہ اب مجھے اور میری چوت کو ٹھیک لوڑا ملا ہے اس لیے وہ کبھی رکاوٹ نہیں بنیں گے۔۔۔ میں نے کہا کہ میری یہ بھی فینٹسی ہے ہم چار ہوں اور باری باری ایک دوسرے کی بیویوں کو چودیں۔۔۔ تو شمائلہ کہنے لگی کہ ان دوستوں میں یہ کام نہیں چلتا لیکن آپ اگر چاہیں گے تو میں اس کا انتظام کر لوں گی۔۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے جب میری شادی ہو جائے گی تو یہ کام ہم کر لیں۔۔ شمائلہ کہنے لگی کہ شادی سے پہلے بھی ہو سکتا ہے ۔۔۔ کیا تم مونا کو چودتے نہیں ہو؟ میں نے کہا کہ اب تک تو نہیں چودا آج اس کی سیل توڑنے کا ارادہ تھا سرینا ہوٹل میں لیکن آپ درمیان آ گئیں تو اب دو تین دن ٹھہر کر اس کی سیل توڑوں گا۔۔ کل میں نے جانا ہے لاہور واپس اور دو تین دن بعد آؤں گا تو پھر اس کی سیل توڑ دوں گا۔۔ابھی ہم یہ باتیں کر رہے تھے کہ سر نے کروٹ لی اور سیدھے لیٹ گئے۔۔۔ لوڑا بدستور کھڑا تھا۔۔ تو شمائلہ نے اس کا لوڑا اپنے منہ میں ڈال لیا۔۔ شمائلہ کو ذرا بھی فکر نہ تھی کہ اس کا شوہر جاگ جائے گا اور ہمیں سیکس کرتے دیکھ لے۔۔۔ میرے ذہن میں ایک بات آئی تو میں نے شمائلہ سے کہا کہ اب رات کے دو بج چکے ہیں میرا خیال ہے کہ ہمیں سونا چاہیے۔ چنانچہ میں پانچ منٹ کی زبردست چدائی کے بعد شمائلہ کی گانڈ میں ہی ڈسچارج ہو گیا۔۔

499603121_122228114384222045_9086710014962749616_n 01-میمونہ اور ثنا کی چدائی

مجھ پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹے پڑ رہے تھے۔ ماں، بیٹی، شوہر، دوست، ہر کوئی دوسرے کی بیٹی اور بیوی کو چود رہا ہے اور سکون ڈاٹ کام کا ماحول ہے۔ میرا لوڑا تو فریحہ کی گانڈ میں ٹائٹ ہو کر پھولتا جا رہا تھا جسے فریحہ نے محسوس کیا اور سسکاریاں لینے لگی۔ مجھے عجیب سی حیرت اور خوشی ہو رہی تھی کہ اب اس فیملی کے ساتھ ساتھ دیگر کئی فیملیز تک رسائی ہو جائے گی اور جب مونا کو چود لوں گا تو اسے بھی اس ٹیم میں شامل کر لوں گا اور مجھے امید تھی کہ جب میں مونا کو چوت اور گانڈ میں اچھی طرح چود لوں گا تو وہ اس گروپ سیکس پارٹی میں شامل ہونے سے انکار نہیں کر سکے گی۔ میں یہ سوچ کر جوش میں آ رہا تھا اور فریحہ کی گانڈ کو بڑی بے دردی سے چود رہا تھا۔ میں خیالوں میں بھی گم تھا اور فریحہ کی گانڈ بھی مار رہا تھا اور اس کی زبان بھی چوس رہا تھا ۔۔۔ فریحہ نے مجھے بے تحاشہ چومنا شروع کیا کیونکہ اسے میرے موٹے لوڑے سے بہت مزہ آ رہا تھا اور اس نے مجھے بتایا تھا کہ اس سے پہلے اتنا موٹا لوڑا کسی نے اس کی گانڈ میں نہیں ڈالا اور اتنی دیر تک کسی نے اسے نہیں چودا تھا کیونکہ اس کی گانڈ کی گرمی بڑے سے بڑا ماہر بھی برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔ اور وہ اپنے کلاس فیلو لڑکوں کے چھوٹے اور پتلے لوڑے دو دو ملا کر بھی گانڈ میں ڈلوا لیتی ہے۔۔۔ میں یہ سوچ کر حیران تھا کہ اس نے اتنی گانڈ مروائی ہے لیکن چوت کو کنوارا رکھا ہوا ہے۔۔۔ میں نے اچانک فریحہ سے پوچھا کہ تم نے ابھی تک اپنی چوت کی سیل کسی کو نہٰں توڑنے دی۔۔۔ حالانکہ تم گانڈ باقاعدہ مروا رہی ہو تو کیسے برداشت کر لیتی ہو؟ جبکہ چوت میں لوڑا ڈلواتی ہی نہیں ہو اور ڈسچارج بھی ہوتی؟ تو کہنے لگی کہ بس میری امی اور ابو نے کہا تھا کہ بیٹی! سیل اپنے شوہر سے ہی تڑوانا ہاں گانڈ جتنی چاہے مرواؤ اسی لیے ابو اور امی جان کے دوست اور ہماری گانڈ مارتے ہیں اور ان کی بیٹیو ں کی بھی گانڈ ہی ماری جاتی ہے چوت سب کی سیل پیک ہے۔۔۔ لیکن میں نے یہ تہیہ کیا ہوا ہے کہ جو آدمی میری گانڈ کو سب سے بہتر طریق پر چودے گا اس سے اپنی سیل تڑواؤں گی اور شادی کا انتظار نہیں کروں گی۔۔

میں نے اپنے خیال کی تکمیل کے لیے جلدی جلدی شمائلہ سے کسنگ کی اور اسے کہا کہ تم سو جاؤ کیونکہ صبح نکلنے سے پہلے ایک بار مزید تمہیں چودوں گا اور میں بھی اب جاتا ہوں سونے کے لیے۔۔میں آخری فرنچ کس کر کے اس کے بیڈ روم سے نکلا اور ننگا ہی گیسٹ روم کی طرف چلا اور گزرتے ہوئے میں نے فریحہ کے کمرے کا دروازہ دیکھا تو وہ کھلا ہوا تھا۔۔۔ میں پہلے اپنے روم میں گیا اور پھر تھوڑی دیر بعد احتیاط سے دروازہ کھولا اور باہر جھانکا تو کوئی بھی نہیں تھا۔۔۔ میں نے کمرہ پھر سے لاک کر دیااور شمائلہ کے بیڈ روم کی طرف چلا گیا۔۔۔ بیڈ روم کا دروازہ کھلا تھا تو میں نے اندر جھانکا تو شمائلہ کے گہرے سانسوں کی آواز آ رہی تھی جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ گہری نیند سو رہی ہے۔ میں واپس ہوا اور سیدھا فریحہ کے کمرے میں گیا اور میں حیران رہ گیا کہ فریحہ اپنے کمرے کے دروازے میں کھڑی مسکرا رہی تھی۔۔ میں نے جیسے ہی اس کو دیکھا تو اسے اٹھا لیا میرا لوڑا اس کی ماں کی پھدی اور چوت کے پانی اور میری منی سے لتھڑا ہوا تھا کہ اس نے وہیں اسے پکڑا اور منہ میں ڈال لیا اور چوسنا شروع کر دیا ۔۔ پھر کہنے لگی کہ آپ بہن چود ہیں ۔۔۔ کیونکہ آپ نے ابھی ابھی اپنی منہ بولی بہن کو چودا ہے اور اب آپ بیٹی چود بھی بن جائیں گے کیونکہ ابو امی کے سامنے آپ مجھے بیٹی بیٹی کر کے بلا رہے تھے۔۔ میں نے کہا کہ میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ کبھی ایک ہی رات میں ماں اور بیٹی دونوں کو چودنے کا موقع ملے اور ماں کی چوت اور گانڈ میں کو چود کر اسی کی بیٹی کی چوت اور گانڈ کو چودنا میرے لیے ایک بہترین فینٹسی ہے ۔۔۔ فریحہ کہنے لگی کہ جب بھی کوئی انکل امی کو چودتے ہیں تو ان کو یہ موقع ضرور ملتا ہے اور میں یہیں انتظار کر رہی ہوتی ہوں کہ جیسے ہی انکل فارغ ہو کر آئیں میں ان کا لوڑااپنے منہ اور زبان کے ساتھ صاف کر دوں۔ میں یہ بات سن کر تو جھوم ہی اٹھا اور میرا لوڑا ٹائٹ ہو گیا۔۔۔ گولی میں نے کھا رکھی تھی۔۔ وہ کہنے لگی کہ سب انکلز سے چدوا چکی ہوں لیکن آپ کا لوڑا ان سب میں موٹا اور کئی ایک سے لمبا ہے۔۔۔ میں نے کہا اچھا جی! اور پھر فریحہ کو گود میں اٹھا کر اس کی پھدی کی موری پر لوڑا سیٹ کیا اور میں نے محسوس کیا کہ اس کی چھوٹی سے پھدی میں سے پانی کے قطرات گر رہے ہیں ۔۔۔ فریحہ کہنے لگی کہ آپ کے لوڑے کے احساس نے میرا پانی نکال دیا ہے۔۔۔ وہ نارمل آواز میں بات کر رہی تھی۔۔۔جیسے اسے کسی کا کوئی ڈر نہ ہو۔۔ جبکہ میں آہستہ بول رہا تھا۔۔ میں نے اسے اٹھا اور اس نے جیسے ہی میری گردن میں اپنی باہیں حمائل کیں میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ لوڑا اس کی چوت کے سوراخ پر رکھ کر دبانے لگا لیکن فریحہ نے اندر نہیں جانے دیا اور میرا لوڑا پکڑ کر اپنی گانڈ کے سوراخ پر سیٹ کر کے دبانے لگی تو میں نے فوراً اس کی گانڈ پر زور دیا اور دوسرے ہی لمحے میرا لوڑا اس کی گانڈ کے اندر اتر چکا تھا اور مجھ پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا کہ فریحہ نے پہلے اپنی گانڈ میں لیا ہے اور چوت میں نہیں جانے دیا۔۔۔ میری حیرت کو ختم کرنے کے لیے فریحہ نے کہا کہ انکل میں نے ابھی تک کسی کو اپنی چوت میں لوڑا نہیں ڈالنے دیا اور میں سیل پیک ہوں میں نے ہر انکل سے گانڈ مروائی ہے اور اب مجھے گانڈ مروانے کا اتنا مزہ آتا ہے کہ دو دو لوڑے بھی لیتی ہوں 

میں نے کہا کہ سیل کون توڑے گا؟ یعنی کس سے سیل تڑواؤ گی؟ تو کہنے لگی کہ جو مجھے سب سے بہترین چودے گا اس سے سیل تڑواؤں گی۔۔۔ میں نے اس کی گانڈ کو چودنا شروع کیا اور وہ پورا لوڑا اندر نہیں جانے دے رہی تھی۔۔۔ میں نے دھکا لگایا اور اپنا پورا لوڑا اس کی گانڈ میں جڑ تک گھسیڑ دیا۔۔۔ وہ چیخ اٹھی کہ انکل اتنا آگے نہ کریں۔۔ میری ناف سے بھی آگے نکل گیا ہے۔۔۔ میں نے کہا کہ بہن چود اب گانڈ ٹھیک طریقے سے ماروں گا تو تیری سیل توڑ سکوں گا نا۔۔۔ تمہیں آج پتہ چلے گا کہ مرد اصل میں کون سا انکل ہے۔۔۔ میں نے پوری طاقت سے فریحہ کی گانڈ میں اندر باہر کرنا شروع کیا اور دس منٹ کی چدائی کے بعد میں نے محسوس کیا کہ فریحہ کو تو جیسے نشہ ہو چکا ہے۔۔۔اس کی چوت سے بہت سارا پانی بہہ کر میرے ٹٹے بھگو رہا تھا اور میرا جوش بڑھتا جا رہا تھا۔۔۔۔ میں اس کے کمرے کے سامنے کھڑے کھڑے فریحہ کو چود رہا تھا کہ اچانک شمائلہ اپنے کمرے سے نکلی اور اس نے ہمیں دیکھ لیا۔۔۔ میں بالکل نہیں گھبرایا کیونکہ فریحہ مجھے بتا چکی تھی کہ ہر انکل امی کو چودنے کے بعد اس کی گانڈ چودتا ہے۔۔۔ شمائلہ آرام سے اپنے کمرے سے باہر نکلی اور بغیر کوئی بات کیے ہمارے پاس سے گزر کر کچن میں گئی اور وہاں سے پانی پی کر واپس ہمارے پاس سے گزرتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔ میں فریحہ کو اٹھا ئے ہوئے اس کے بیڈ روم میں داخل ہو گیا اور اس کی چھوٹی بہن والے بیڈ پر اس کو لٹا کر اس کی گانڈ مارنے لگا اس کی چھوٹی بہن ملیحہ میرے جھٹکوں کی وجہ سے ہل رہی تھی۔۔۔ اس کے 32 کے ممے صاف نظر آرہےتھے۔۔ میں نے اپنا ایک ہاتھ ملیحہ کے ایک ممے پر آرام سے رکھ دیا اور ہلکا ہلکا مساج کرنے لگا فریحہ نے مجھے منع نہیں کیا تو میں سمجھ گیا کہ اس گھر کے معاملات تو بڑے ہی سیدھے ہیں۔۔ پھر میں نے سوچا کہ ایک رات میں تیسری چوت یا گانڈ چکھی جا سکتی ہے تو میں نے ملیحہ کا پاجامہ نیچے کرنے کی کوشش کی تو ایک بار پھر حیران رہ گیا کہ ملیحہ نے اپنا پاجامی خود نیچے کر کے اپنی ٹانگیں کھول کر پھدی ننگی میرے سامنے پھیلا دی۔۔۔ میں تو اس کی بنا بالوں والی چوت پر پل پڑا اور اس کی چوت چاٹنے لگا۔۔۔ تو تھوڑی دیر میں اس کی چوت نے پانی چھوڑ دیا اور پھر وہ کتیا کی طرح ہو گئی اورمیں اس کی گانڈ چاٹنے لگا مٰں نے محسوس کیا کہ اس کی گانڈ میں کئی لوڑے سیر کر چکے ہیں۔۔۔ فریحہ نے کہا کہ ملیحہ انکل کا بہت موٹا اور لمبا ہے اس لیے میری بہن احتیاط کرو ابھی نہ لو لیکن ملیحہ نے بنا کچھ کہنے مجھے اپنی طرف کھینچا اور میں نے فریحہ کی گانڈ سے لوڑا نکال کر ملیحہ کی چکنی گانڈ پر رکھا اور تھوک پھینک کر ٹوپی اس کی گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر ہلکا سا دبایا تو اس کی ملائم گانڈ نے میرے لوڑے کو رستہ دے دیا۔۔۔ میرا لوڑا دو تین جھٹکوں میں ملیحہ کی گانڈ میں اتر چکا تھا ملیحہ کہنے لگی کہ انکل پورا اندر کریں ۔۔۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور ایک بار باہر نکال کر جڑ تک سارا اندر گھسا دیا۔۔۔۔ ملیحہ نے کہا کہ فریحہ باجی آج پتہ چلا کہ اصلی مرد کون ہوتا ہے۔۔۔۔ پھر میں نے فریحہ کو ملیحہ کے اوپر سیٹ کیا اور اب تو میں نے ایک مشین چلا دی ایک جھٹکا فریحہ کی گانڈ میں اور ایک جھٹکا ملیحہ کی گانڈ میں مار رہا تھا۔۔۔ آدھے گھنٹے کی گانڈ چدائی کے بعد میں نے پوچھا کہ کس کی گانڈ میں اپنا پانی چھوڑو؟ تو ملیحہ کہنے لگی کہ میرا حق بنتا ہے میں چھوٹی ہوں۔۔۔ میں نے کہا کہ فریحہ تم کیا کہتی ہو؟ فریحہ کہنے لگی کہ ایک دھار اس کی گانڈ میں مار دیں اور ایک میری۔۔۔ میں نے فوراً ہی ایک دھار ملیحہ کی گانڈ میں چھوڑی اور فوراً لوڑا نکال کر فریحہ کی گانڈ میں ڈالا اور ایک دھار اس میں چھوڑی پھر ملیحہ کی گانڈ میں ڈال کر اس کے اوپر لیٹ گیا۔۔۔ میں وہیں سونا چاہتا تھا اور میں درمیان میں لیٹ گیااور دونوں بہنیں میرے دائی بائیں لیٹ کر مجھے چومنے لگیں کہ انکل آپ بیسٹ ہیں اور اب تک ہم نے آپ سے بڑا چدائی ماسٹر نہیں دیکھا۔۔۔ ہم جب ابا کو بتائیں گی تو وہ بہت خوش ہوں گے۔۔۔ یہ میرے لیے ایک اور حیرت انگیز بات تھی۔۔۔ لیکن میں چپ رہااور پھر نیند کی وادی میں کھو گیا۔۔
Next Part Click Here

Share this content:

Post Comment